توہین مذہب کے معاملہ میں 18 سال تک جیل میں رہنے والا شخص بری

روزنامہ ’ڈان‘ کے مطابق عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295-سی کا سامنا کرنے والے ملزم کے خلاف عدم شواہد کی بنا پر فیصلہ سنایا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

اسلام آباد: پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے توہین مذہب کے ایک معاملہ میں 2002 میں سزائے موت پانے والے اور 18 سال تک مسلسل سلاخوں کے پیچھے رہنے والے شخص کو بری کردیا۔ روزنامہ ’ڈان‘ کے مطابق عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295-سی کا سامنا کرنے والے ملزم کے خلاف عدم شواہد کی بنا پر فیصلہ سنایا۔

دوران سماعت عدالت کو معلوم ہوا کہ ملزم کی جانب سے لکھے گئے خطوط کے بارے میں استغاثہ بنیادی شکوک کو ثابت کرنے میں ناکام رہا جو حسان کے خلاف توہین مذہب کے الزام کی بنیاد بنے تھے اور کہا گیا تھا کہ یہ خطوط انہوں نے خود لکھے تھے۔


وکیل نے حکومت سے استدعا کی تھی کہ قانون سے سزائے موت ختم کی جائے اور کہا تھا کہ سزائے موت صرف سنگین جرائم میں ہی سنائی جانی چاہیے۔ نتیجتاً شرعی عدالت نے 1991 میں حکومت کو 30 اپریل 1991 تک قوانین میں ترمیم کرنے کے احکامات دیئے تھے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل 31 اکتوبر 2018 کو توہین مذہب کے الزامات میں سزائے موت کا سامنا کرنے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کے کیس کا فیصلہ کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی کسی کو اجازت نہیں ہے لیکن جب تک کوئی گناہ گار ثابت نہ ہو سکے تو بلا امتیاز معصوم اور بے گناہ تصور کیا جائے گا۔


فیصلے میں کہا گیا تھا کہ’’ ملزم کو اس وقت تک بے گناہ تصور کیا جاتا ہے جب تک استغاثہ ٹھوس ثبوت کی بنیاد پر مدعی کی جانب سے ملزم پر لگائے گئے الزمات پرعدالت کو مطمئن کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا‘‘۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔