زجاپانی وزیر اعظم یوشی ہیڈے سُوگا کی کابینہ نے انیس فروری کو ایک اجلاس میں فیصلہ کیا کہ ملک میں بعض معاشرتی مسائل کے تناظر میں ایک نئے وزیر کی تقرری ضروری ہو گئی ہے اور یہ وزیر پوری طرح شہریوں میں احساس تنہائی کو کم کرنے پر توجہ دے گا۔
Published: undefined
اس وزیر کی ضرورت اور اس کی ذمہ داریوں میں کورونا کی وبا کے باعث شہریوں میں اکیلے پن کے احساس سے پیدا ہونے والے ڈیپریشن کے نتیجے میں خود کشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنا زیادہ اہم بتایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اسی وزیر کو بچوں میں بڑھتی ہوئی غربت کا سدباب بھی کرنا ہو گا۔
Published: undefined
Published: undefined
جاپان میں گزشتہ گیارہ برسوں میں خود کشی کے رجحان میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ اس اضافے کی ایک بڑی وجہ ماہرینِ سماجیات نے کورونا کی وبا سے پیدا ہونے والی بحرانی صورتِ حال بھی بتائی ہے۔
Published: undefined
خود کشی کے رجحان کو کنٹرول کرنے کے لیے وزیر اعظم یوشی ہیڈے سُوگا نے اپنی سیاسی جماعت لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے سیاستدان اور رکن پارلیمنٹ ٹیٹسوشی ساکاموٹو کو ملک کا اولین 'وزیرِ تنہائی‘ مقرر کیا ہے۔
Published: undefined
ٹیٹسوشی ساکاموٹو پہلے ہی ملک میں زوال پذیر شرح پیدائش کو بہتر بنانے کی وزارت کے نگران سربراہ بھی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی ذمہ داریوں میں علاقائی معیشت کو مضبوط بنانا بھی شامل ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
کورونا وائرس سے پھیلنے والی مہلک وبا اور لاک ڈاؤن نے جاپانی معاشرت پر خاصے منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ ان اثرات کی وجہ سے جاپانی قوم میں پہلے سے موجود خود کشی کے رویے کو مزید تقویت ملی ہے۔ عام لوگوں میں احساسِ تنہائی زیادہ ابھر کر سامنے آیا ہے۔
Published: undefined
اپنی تقرری کے بعد ٹیٹسوشی ساکاموٹو نے کہا کہ سُوگا حکومت نے جاپانی معاشرے میں احساسِ تنہائی کے بڑھنے کو قومی اہمیت کا حامل ایک مسئلہ سمجھا ہے۔ انہوں نے کورونا وائرس کی وبا کے دوران جاپانی خواتین میں خود کشی کے رجحان کو بہت زیادہ اور انتہائی افسوس ناک قرار دیا۔
Published: undefined
Published: undefined
ٹیٹسوشی ساکاموٹو نے اپنا منصب سنبھالنے کے بعد پہلی پریس بریفنگ میں کہا کہ وزیر اعظم سُوگا نے انہیں واضح ہدایت کی ہے کہ وہ ہر عمر کے شہریوں میں احساسِ تنہائی کو کم سے کم کرنے کے لیے ایک قابلِ عمل لیکن جامع حکمتِ عملی مرتب کریں۔
Published: undefined
ساکاموٹو نے کہا کہ فوری طور پر اس حوالے سے کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے اور سماجی اکیلے پن اور تنہائی کے رویوں کی نشاندہی کا کام شروع ہو چکا ہے۔ ساکاموٹو نے اس عزم کا اظہار کیا کہ جلد ہی ایسے افراد کے تحفظ کی خاطر انہیں 'سماجی لڑی میں پرونے‘ کا عمل شروع کر دیا جائے گا۔
Published: undefined
Published: undefined
سن 2020 میں اکتوبر کے مہینے تک جاپان میں آٹھ سو اسی خواتین خود کشی کر چکی تھیں۔ یہ تعداد سن 2019 کے مقابلے میں ستر فیصد زیادہ تھی۔ اس صورت حال کی ایک بڑی وجہ کورونا لاک ڈاؤن میں نوکریوں کا نا ہونا بھی بتائی گئی تھی۔
Published: undefined
جاپان میں کورونا وائرس کی وبا سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد سات ہزار پانچ سو چوراسی ہے۔ اس وبا کی لپیٹ میں آنے والے افراد کی تعداد چار لاکھ تیس ہزار کے قریب ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
دوسری جانب ایک ریسرچ کے مطابق یورپی یونیں کی رکن ریاستوں میں کورونا کی وبا کے دنوں میں بزرگ افراد کے علاوہ تیس ملین سے زائد نوجوانوں کو بھی تنہائی کا شکار ہونا پڑا۔ پچھتر ملین لوگوں کو ایک ماہ میں ایک دفعہ دوستوں یا خاندان کے افراد سے ملاقات کا موقع میسر آتا تھا، اور اب وہ بھی تقریباﹰ ختم ہو چکا ہے۔
Published: undefined
تنہائی کی شدید صورت حال پر قابو پانے کے لیے برطانوی حکومت نے بھی کورونا کی وبا سی قریب دو سال قبل سن 2018 میں ایک خصوصی وزارت قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کو مثال بناتے ہوئے جرمن سیاستدانوں نے بھی اپنے ملک میں ایسا کیے جانے کی حمایت کی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined