سماج

ریپ کے معاملے میں بھارتی سیاست دانوں کی بے حسی؟

ایک بھارتی قانون ساز نے کہا تھا کہ اگر کسی خاتون کا ریپ ہورہا ہو تواسے 'انجوائے‘ کرنا چاہیے۔ ریپ کے حوالے سے ایسی'' شرمناک‘‘ ذہنیت کا مظاہرہ بھارتی قانون ساز پہلے بھی کرچکے ہیں۔

ریپ کے معاملے میں بھارتی سیاست دانوں کی بے حسی؟
ریپ کے معاملے میں بھارتی سیاست دانوں کی بے حسی؟ 

ایسے وقت میں جب پوری دنیا میں ریپ اور جنسی استحصال کے خلاف پہلے سے کہیں زیادہ آوازیں بلند ہورہی ہیں۔ بھارتی سیاست داں اور قانون ساز مسلسل اس انتہائی اہم مسئلے پر بے حسی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔

Published: undefined

تازہ ترین واقعہ بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک کا ہے۔ جہاں رکن اسمبلی اور سابق اسپیکر کے آر رمیش کمار نے جمعرات کے روز ریپ کے حوالے سے متنازعہ بیان دیا۔

Published: undefined

معاملہ کیا تھا ؟

کرناٹک اسمبلی میں جمعرات کے روزایک بحث میں حصہ لیتے ہوئے کانگریس کے رکن اور سابق اسپیکر رمیش کمار نے کہا،''لوگ کہتے ہیں کہ اگرریپ ہونا ناگزیر محسوس ہوتو آرام سے لیٹ جانا اور اس سے لطف اندوز ہونا چاہیے۔‘‘

Published: undefined

حیرت اور افسوس کی بات یہ تھی کہ ان کے اس بیان پر اسمبلی کے اسپیکر نے کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ ہنستے رہے۔ دیگر اراکین بھی اس بیان پر مسکراتے اور اس سے محظوظ ہوتے دکھائی دیے۔

Published: undefined

تاہم رمیش کمار کے اس متنازعہ بیان پر سوشل میڈیا پر کافی سخت ردعمل سامنے آیا۔ متعدد خواتین تنظیموں اور خواتین سیاست دانوں نے بھی اس پر سخت اعتراض کیا۔ جس کے بعد رمیش کمار نے جمعے کے روز اسمبلی میں اپنے بیان پر معذرت کرتے ہوئے کہا، '' میرا ارادہ خواتین کی توہین کرنا یا اس بھیانک جرم کو کم کرنا نہیں تھا۔ میں الفاظ کے غلط استعمال کے لیے تہہ دل سے معافی مانگتا ہوں۔‘‘

Published: undefined

کانگریس پارٹی نے بھی رمیش کمار کے بیان پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ عمل پارٹی کی دیرینہ روایت کے برخلاف ہے۔

Published: undefined

یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے

رمیش کمار نے خواتین کے ساتھ ریپ کے حوالے سے جو بیان دیا یہ اس طرح کا کوئی پہلا بیان نہیں ہے۔ ماضی میں متعدد اہم سیاست داں خواتین اور بالخصوص ریپ کی متاثرین کے تئیں بے حسی کا اظہار کرچکے ہیں۔

Published: undefined

اس حوالے سے سب سے 'مشہور'بیان سابق وزیر دفاع اور سماج وادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو کا ہے۔ انہوں نے ریپ کے لیے سزائے موت کی مخالفت کرتے ہوئے سن 2014 میں کہا تھا، '' لڑکے ہیں، غلطی ہوجاتی ہے۔ لڑکیاں پہلے دوستی کرتی ہیں۔ لڑکے لڑکی میں اختلاف ہوجاتا ہے۔ اختلاف ہونے کے بعد اسے ریپ کا نام دے دیتی ہیں۔ لڑکوں سے غلطی ہوجاتی ہے۔ کیا ریپ کیس میں پھانسی دی جائے گی؟‘‘

Published: undefined

مغربی بنگال کی وزیر اعلٰی ممتا بنرجی نے سن 2012 میں کہا تھا کہ بھارت میں ریپ کیسز میں اضافہ اس لیے ہورہا ہے کیونکہ مرد اور خواتین کے ایک دوسرے کے ساتھ آزادنہ اختلاط کا موقع کافی بڑھ گیا ہے۔ انہو ں نے کہا تھا،''پہلے اگر کوئی مرد کسی خاتون کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ہوئے دکھائی دے جاتا تھا تو اس کے سرپرست اس کی سرزنش کرتے تھے لیکن اب سب کچھ کھلے عام ہورہا ہے۔ یہ ایک اوپن مارکیٹ کی طرح ہوگیا ہے جہاں متبادل موجود ہیں۔‘‘

Published: undefined

ہریانہ کے سابق وزیر اعلٰی اوم پرکاش چوٹالا نے لڑکیوں کو ریپ سے بچانے کے لیے ان کی شادی 16برس میں ہی کردینے کی وکالت کی تھی۔ ان کا کہنا تھا،''لوگ مغلوں کی زیادتی سے اپنی بیٹیوں کو بچانے کے لیے کم عمر میں شادی کردیتے تھے، ریاست میں بھی یہی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔‘‘ چوٹالا کے مطابق کم عمری میں شادی سے ''ریپ کے واقعات کم ہوجائیں گے۔‘‘

Published: undefined

مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلٰی بہادر لال گوڑ نے کہا تھا،''ریپ ایک سماجی جرم ہے جو عورت اور مرد پر منحصر ہوتا ہے۔ بعض اوقات یہ درست ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی غلط۔ جب تک شکایت درج نہ کرائی جائے تب تک سب ٹھیک ہے۔‘‘

Published: undefined

ریپ کے خلاف حکومتی اقدامات بے نتیجہ

بھارتی دارالحکومت دہلی میں سن 2012 میں ایک بس میں ایک خاتون کی اجتماعی جنسی زیادتی کے واقعے کے بعد سے جنسی جرائم کے خلاف یوں تو کافی بیداری آئی ہے۔ تاہم ریپ کے واقعات کم نہیں ہورہے ہیں۔

Published: undefined

بھارت میں جرائم کا ریکارڈ رکھنے والے سرکاری ادارے 'نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو'کے مطابق سن 2020 میں ہر روز 77 خواتین کے ساتھ ریپ کے واقعات درج کیے گئے۔ بیورو کے مطابق مجموعی طور پر 28 ہزار 46 ریپ کے کیسز درج کیے گئے۔

Published: undefined

حالانکہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ بتائی جاتی ہے کیونکہ متاثرہ خواتین یا ان کے گھر والے سماجی بدنامی کے ڈر سے معاملے کو پولیس میں نہیں لے جاتے۔ بعض اوقات پولیس خود بھی ان کی حوصلہ شکنی کرتی ہے جب کہ کئی معاملات میں ریپ کا ویڈیو وائرل کرنے کی دھمکی دے کر بھی متاثرہ خواتین کو قانونی چارہ جوئی کی طرف بڑھنے سے باز رکھا جاتا ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ریپ کی شکار 11 فیصد خواتین انتہائی پسماندہ یعنی دلت طبقے سے تعلق رکھتی ہیں۔

Published: undefined

تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن نے 2018ء میں اپنے ایک سروے کی رپورٹ میں بھارت کو دنیا بھر میں خواتین کے لیے سب سے خطرناک ملک قرار دیا تھا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined