رواں ہفتے کے شروع پر فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے کہا تھا کہ یوکرین اور دوسرے ممالک کی یورپی یونین میں شمولیت میں دہائیاں لگ سکتی ہیں۔ مبصرین کے مطابق ایسا کہتے وقت ان کے ذہن میں یقینی طور پر ترکی بھی ہو گا، جس نے سن 1999 سے رکن بننے کی درخواست دے رکھی ہے لیکن تب جرمن چانسلر ہیلموٹ کوہل نے سیاسی فیصلہ کرتے ہوئے اسے روک دیا تھا۔
Published: undefined
ترکی کی رکنیت کے حوالے سے مذاکرات کے کئی ادوار ہو چکے ہیں لیکن ان میں کوئی پیش رفت نہ ہو سکی جبکہ دوسری جانب صدر رجب طیب ایردوآن بتریج آمرانہ طرز حکومت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ ترکی میں انسانی حقوق کی صورتِ حال خراب تر ہو رہی ہے اور یورپی یونین نے مذاکراتی عمل کو سرد خانے میں ڈال دیا ہے۔
Published: undefined
یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنے کے ملک کو کوپن ہیگن معیارات (کرائٹیریا) کو پورا کرنا لازمی ہوتا ہے۔ یہ معیارات سن 1993 میں ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں ہونے والی سمٹ میں منظور کیے گئے تھے۔ ان معیارات میں قانون کی حکمرانی کی ضمانت اور اہم اداروں کی آزادی جیسے امور شامل ہیں۔
Published: undefined
ستائیس رکنی یورپی یونین کے اراکین کا خیال ہے رکنیت حاصل کرنے والے ممالک علاقائی صورت حال اور اقتصادی منفعت کے تناظر میں بھی درخواستیں جمع کروانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ یورپی یونین کے ماہرین کا خیال ہے کہ ترکی کی موجودہ سیاسی صورت حال اس کی رکنیت کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ ہنگری رکن ہے لیکن وہاں حکومت جمہوری عمل کے منافی اقدامات سے گریز نہیں کرتی۔
Published: undefined
یورپی یونین کو تسلیم کرنے اور اس کے قوانین پر عمل درآمد شروع کرنے کے بعد یورپی کمیشن کے اہلکار رکنیت کے خواہش مند ملک کے ساتھ مذاکرت کا آغاز کر دیتے ہیں۔۔ اس عمل کے دوران اس ملک کو عدالتی، انتظامی، اقتصادی اور سیاسی ڈھانچے میں تبدیلیاں پیدا کرنا بھی ضروری ہوتا ہے اور ان کی تصدیق یورپی یونین کے معیارات کی روشنی میں اعلیٰ اہلکار کرتے ہیں۔ ان تمام اقدامات کو دیکھتے ہوئے یورپی کونسل کو متفقہ طور پر انہیں تسلیم کرنا ہوتا ہے۔
Published: undefined
اس کے بعد کے مرحلہ میں یورپی کمیشن کی جانب سے درخواست کا جامع جائزہ لیا جاتا ہے اور یہ تعین کیا جاتا ہے کہ اس ملک کے ادارے تجویز کردہ فریم ورک کے مطابق عمل کر رہے ہیں اور اس مناسبت سے مذاکراتی عمل کو کئی حصوں میں بانٹ دیا جاتا ہے۔
Published: undefined
یورپی یونین کی رکن ریاستیں اس عمل کو تسلیم کر لیں تو پھر مذاکراتی سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے۔ یہ مذاکرات موضوعات میں تقسیم ہوتے ہیں، جیسے کہ بنیادی امور، داخلی منڈی، مسابقتی عمل، ترقی کی رفتار، گرین ایجنڈا اور پائیداری، ذخائر، زراعت اور آپس میں ربط و ملاپ وغیرہ ہیں۔
Published: undefined
ان موضوعات پر مذاکرات میں جہاں جہاں کمی پائی جاتی ہے، ان کو پورا کرنے کے لیے یورپی کمیشن کے مذاکرات کار تجاویز فراہم کرتے ہیں یا بتدریج ترقی کا عمل واضح کرتے ہیں۔ ان معاملات پر مکمل عمل درآمد کے لیے کئی سال درکار ہوتے ہیں۔
Published: undefined
ایک بات اہم ہے کہ اگر رکنیت حاصل کرنے والا ملک تجاویز پر عمل کو مسترد کر دیتا ہے تو رکنیت کا عمل رک جاتا ہے اور اس کی مثال ترکی ہے، جہاں کئی معاملات اس وقت یورپی یونین کی بنیادی پالیسیوں کے منافی خیال کیے جاتے ہیں۔
Published: undefined
یورپی یونین نے رکنیت سازی کے لیے چودہ بلین یورو سے زائد مختص کر رکھے ہیں۔ نئے رکن بنانے کے عمل میں بے شمار سیاسی معاملات کو حل کرنا پڑتا ہے۔ کوسوو اور بوسنیا ہیرزگووینا کی رکنیت بھی رکی ہوئی ہے۔ ان کی یونین میں شمولیت کے عمل میں وقفہ پیدا ہو چکا ہے کیونکہ ان کی حکومتوں نے ہمسایہ ممالک کو دھمکیاں دے رکھی ہیں جو یورپی یونین کے معیارات کے منافی ہیں۔
Published: undefined
کئی سالوں سے سربیا اور مونٹی نیگرو بھی رکنیت کی درخواست جمع کروائے ہوئے ہیں لیکن یورپی کمیشن کے خدشات ان ممالک سے ابھی تک رفع نہیں ہو سکے ہیں۔ حال ہی میں رکنیت سازی کا مذاکراتی عمل شمالی مقدونیہ کے ساتھ شروع کیا گیا ہے۔ اس عمل کو ہالینڈ کی حکومت نے اب روک دیا ہے کیونکہ وہاں کی حکومت سرحدوں کے آرپار ہونے والے جرائم کی بیخ کنی میں دلچسپی نہیں رکھتی۔
Published: undefined
مجموعی طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ یورپی یونین کی رکنیت پلیٹ میں رکھا پھل نہیں بلکہ یہ ایک تھکا دینے والا عمل ہے جو کئی سالوں پر محیط ہوتا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined