سماج

تباہ حال ملک شام اور اسد حکومت کے پچاس برس

عرب دنیا کا ملک خانہ جنگی سے شدید تباہی و بربادی کا شکار ہے۔ کھنڈر بنے ملک میں اسد خاندان کی حکومت کے پچاس برس مکمل ہو گئے ہیں۔

تباہ حال ملک شام اور اسد حکومت کے پچاس برس
تباہ حال ملک شام اور اسد حکومت کے پچاس برس 

یہ تیرہ نومبر سن 1970 کی بات ہے جب شامی ایئر فورس کے ایک نوجوان افسر نے ساحلی پہاڑی علاقے سے پرامن فوجی بغاوت کرتے ہوئے حکومت پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ شام کی آزادی کے بعد مسلسل فوجی بغاوتوں میں یہ بھی ایک اور فوجی مداخلت خیال کی گئی اور کسی کو یقین نہیں تھا کہ اس فوجی بغاوت سے قائم ہونے والی حکومت پانچ دہائیاں مکمل کرے گی۔ شام نے سن 1946 میں فرانس سے آزادی حاصل کی تھی۔

Published: undefined

الاسد خاندان

Published: undefined

عرب ملک شام پر مسلسل پچاس برسوں سے حکومت حافظ الاسد کا خاندان کر رہا ہے۔ حافظ الاسد چھ اکتوبر سن 1930 میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ سن 1971 سے سن 2000 تک ملک کے صدر رہے۔ اس تمام عرصے میں وہ حکمران عرب سوشلسٹ بعث پارٹی کی نیشنل کمانڈ کے سیکرٹری جنرل بھی رہے۔ یہ منصب ایک طرح سے پارٹی اور حکومت کے سربراہ کا بھی ہے۔ عرب سوشلسٹ بعث پارٹی اس وقت بھی شام کی حکمران جماعت ہے۔ حافظ الاسد کے دور میں شامی عُمال کو مجبور کیا جاتا تھا کہ وہ انہیں 'المقدس‘ کے القاب سے پکاریں۔ انہی کے حکومتی دور میں 'علوی‘ فرقے کے افراد کو سکیورٹی اور خفیہ اداروں میں خاص طور پر تعینات کیا گیا۔ ان کی رحلت کے بعد عبوری طور پر عبدالحلیم خدام صدر ضرور بنے لیکن جلد ہی پارٹی نے حافظ الاسد کے بیٹے بشار الاسد کو ملک کا سربراہ مقرر کر دیا۔ وہ بھی گزشتہ بیس برسوں سے حکومت سنبھالے ہوئے ہیں۔

Published: undefined

دس برس سے جاری خانہ جنگی

Published: undefined

گزشتہ تقریباً ایک دہائی کے دوران شام میں اسد خاندان کے خلاف شروع ہونے والی خانہ جنگی میں ملک کے پانچ لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اقتصادی طور پر ملک شدید مندی کی حالت میں ہے اور معاشی حالات دگرگوں ہیں۔ بشار الاسد حکومت کے ہاتھ سے تقریباً سارا ملک مسلح مزاحمتی گروپوں ک ہاتھ میں چلا گیا تھا۔ ان گروپوں کو خلیج فارس کی عرب ریاستوں کی مالی و عسکری مدد حاصل تھی۔ مغربی اقوام بھی ان کی حامی تھیں۔ ان مزاحمتی مسلح گروپوں کے کارکنوں کو حکومت باغی قرار دیتی چلی آ رہی ہے۔ اب روس اور ایران کی عسکری مدد سے شدید تباہی سے دوچار ملک پر اسد حکومت کو پھر سے کنٹرول حاصل ہوا ہے۔ بشار الاسد کا نصف دورِ حکومت اس خانہ جنگی نے ہڑپ کر لیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق صدر بشار الاسد کی حکومت کا قریب مکمل انحصار روس اور ایران جیسے اتحادی ممالک پر ہے۔

Published: undefined

حکومتی طرز عمل

Published: undefined

ماہرین کا کہنا ہے کہ اسد خاندان کی حکومت کا تسلسل سوشلزم کے بجائے کرپشن زدہ حکومتی اہلکاروں کے مرہونِ منت ہے۔ اس اندازِ حکومت کو 'کلیپٹو کریسی‘ (Kleptocracy) قرار دیا جاتا ہے۔ عرب دنیا کے معاملات پر نگاہ رکھنے والے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ پچاس برسوں سے حکومت کا طریقہٴ کار جابرانہ نظام، کمپرومائز کی کوئی گنجائش نہیں اور بربریت و ظلم ہے۔ ان ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسد خاندان بھی کیوبا کے کاسترو فیملی اور شمالی کوریا کے کم خاندان کی طرح ملک کے اقتدار پر اپنا حق سمجھ کر حکومتی عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔

Published: undefined

نصف صدی سے جاری طرزِ حکومت

Published: undefined

ابھی ایسے آثار ظاہر نہیں ہوئے کہ اسد خاندان اقتدار میں پچاس برس مکمل کرنے کی کوئی تقریب منانے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ برطانوی دارالحکومت میں واقع معتبر تھنک ٹینک رائل چیتم ہاؤس کے شعبہٴ مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ سے وابستہ ایک ریسرچر نیلقولیام کا کہنا ہے کہ یہ خاندان بے رحمانہ اور ظالمانہ انداز میں حکومت کرتے ہوئے ملک کو ایک ناکام، مجروح اور گم ہو جانے والے ملکوں کی منزل پر لے آیا ہے۔ سن 1982 میں حافظ الاسد نے حما میں اخوان المسلمون پر جو کریک ڈاؤن کیا اس میں ہزاروں افراد کو ہلاک کر دیا گیا تھا، شامی انسانی حقوق کی کونسل ہلاک شدگان کی تعداد چالیس ہزار کے قریب بیان کرتی ہے۔ بشار الاسد کے دور میں شروع ہونے والی خانہ جنگی میں ہلاکتیں لاکھوں میں ہیں۔ اس تناظر میں کہا جاتا ہے کہ اسد خاندان اندرون ملک میں 'نو کمپرومائز‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ سابق امریکی صدر نے حافظ الاسد سے کئی ملاقاتیں کی تھیں۔ کلنٹن نے اپنی ئاداشتوں میں مرحوم شامی صدر کو 'بے رحمانہ‘ قرار دیا۔ بشار الاسد برطانہ سے میڈیکل کی تعلیم لے کر واپس لوٹے تھے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت سنبھالنے کے بعد انہوں نے اصلاحاتی پروگرام متعارف کرائے لیکن پھر وہ بھی اپنے والد کے نقشِ قدم پر چل نکلے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined