سماج

یورپ کو افغان مہاجرین کے باعث ممکنہ بحران سے خوف

ترکی اور ایران کی سرحد پر مہاجرین کو روکنے کے لیے تعمیر دیوار آسمان سے کسی سانپ کے مانند دکھائی دیتی ہے۔ اگر یہ نامکمل دیوار بھی مہاجرین کو نہ روک پائی تو یورپ مہاجرین کے ممکنہ بحران سے کیسے نمٹے گا۔

یورپ کو افغان مہاجرین کے باعث ممکنہ بحران سے خوف
یورپ کو افغان مہاجرین کے باعث ممکنہ بحران سے خوف 

ایشیا سے یورپ کی جانب مہاجرت کے لیے استعمال ہونے والے مصروف ترین راستے پر گزشتہ برسوں کے دوران مہاجرین اور پناہ گزینوں کی تعداد میں کمی دیکھی جا رہی تھی۔ لیکن افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد یورپی ممالک اور ترکی کو خدشہ ہے کہ مہاجرین ایک مرتبہ پھر یورپ کا رخ کریں گے۔

Published: undefined

یورپ نہ آئیں، پڑوسی ممالک میں جائیں

سن 2015 میں شامی خانہ جنگی کے باعث یورپ میں لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین آئے تھے جس کے باعث بحرانی صورت حال پیدا ہو گئی تھی۔ یورپی رہنما اب کی بار ایسی صورت حال سے کسی بھی قیمت پر بچنا چاہتے ہیں۔

Published: undefined

دو دہائیوں کے دوران افغانستان میں نیٹو افواج اور اداروں کی مدد کرنے والے افغانوں کے علاوہ یورپ آنے کی خواہش رکھنے والے دیگر شہریوں کے لیے یورپ کا پیغام واضح ہے، ’اگر آپ کو مجبورا ہجرت کرنا پڑے تو اپنے پڑوسی ملکوں میں جائیں، ہماری طرف مت آئیں‘۔

Published: undefined

رواں ہفتے یورپی وزرائے داخلہ کی ایک میٹنگ میں یورپی یونین کے حکام نے ایک خفیہ میمو میں بتایا کہ سن 2015 کے بحران سے انہوں نے یہ سبق سیکھا ہے کہ افغانوں کو ان کے حال پر نہ چھوڑا جائے، کیوں کہ اگر انہیں فوری طور پر امداد فراہم نہ کی گئی تو وہ مہاجرت کی راہ اختیار کرنا شروع کر دیں گے۔

Published: undefined

افغانستان کے پڑوسی ملکوں میں ’ملک بدری کے مراکز‘

یورپ میں پہلے ہی سے افغان پناہ گزینوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ طالبان کے قبضے سے قبل یورپی ممالک پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کو ملک بدر کر کے واپس افغانستان بھی بھیج رہے تھے۔ مہاجرین کے بارے میں سخت رویہ رکھنے والے یورپی ملک آسٹریا نے موجودہ صورت حال میں یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ افغانستان کے پڑوسی ممالک میں ’ملک بدری کے مراکز‘ بنائے جائیں۔

Published: undefined

آسٹرین حکام کے مطابق یورپ میں موجود اور نئے ممکنہ پناہ گزینوں کو سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد کر دیے جانے کے بعد اگر افغانستان بھیجنا ممکن نہ رہے تو انہیں انہیں افغانستان کے پڑوسی ممالک بھیج دیا جائے۔ آسٹریا کے وزیر داخلہ کارل نیہامر نے کئی دیگر یورپی ممالک کی سوچ کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا کہ کوشش یہ ہونا چاہیے کہ افغان شہریوں کو یورپ آنے سے روکا جائے اور انہیں خطے ہی میں رکھا جائے۔

Published: undefined

ترکی دیگر یورپی ممالک کیا پیغام دے رہے ہیں؟

جرمنی نے سن 2015 میں مہاجرین کو خوش آمدید کہا تھا اور یورپ میں شامی مہاجرین کی سب سے زیادہ تعداد کو جرمنی ہی میں پناہ ملی تھی۔ اس مرتبہ تاہم جرمنی کا رویہ بھی سخت دکھائی دے رہا ہے۔ دائیں بازو کی عوامیت پسند جرمن سیاسی جماعت اے ایف ڈی تو افغان مہاجرین کو پناہ دینے کے خلاف ہے ہی لیکن سی ڈی یو کے رہنما اور چانسلر میرکل کے ممکنہ جانشین آرمین لاشیٹ نے بھی گزشتہ ہفتے خبردار کیا کہ سن 2015 کی طرح کا بحران نہیں دہرایا جا سکتا۔

Published: undefined

فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے پیر کے روز کہا کہ افغانستان کی صورتحال کا ’بوجھ صرف یورپ کے کندھوں پر نہیں لادا‘ جانا چاہیے اور یورپ کو غیر منظم مہاجرت کا راستہ روکنے کے لیے بھرپور اقدامات کرنا چاہییں۔

Published: undefined

یورپی یونین کی بیرونی سرحد پر واقع ممالک اٹلی اور یونان مہاجرین کے گزشتہ بحران کے دوران سب سے زیادہ متاثر ہوئے تھے۔ یونان نے اس مرتبہ واضح کیا ہے کہ وہ ’یورپ کی جانب غیر منظم مہاجرت کا گیٹ وے‘ بننے کے لیے تیار نہیں اور ان کی رائے میں ترکی مہاجرین کے لیے ’محفوظ ملک‘ ہے۔

Published: undefined

ترک صدر ایسے بیانات پر ناخوش ہیں۔ ترکی میں پہلے ہی ساڑھے تین ملین سے زیادہ شامی مہاجرین پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے پہلی مرتبہ جمعے کے روز افغان مہاجرین کے حوالے سے اپنے ایرانی ہم منصب اور یونانی وزیر اعظم سے ٹیلی فون پر گفتگو کی۔

Published: undefined

افغان مہاجرین کی سب سے زیادہ تعداد پاکستان اور ایران میں

گزشتہ چار دہائیوں سے جنگوں کے سامنا کرنے والے افغان باشندوں کی زیادہ تر تعداد پاکستان اور ایران میں پناہ لیے ہوئے ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرت کے مطابق قریب تین ملین افغان مہاجرین میں سے 90 فیصد پاکستان اور ایران میں ہیں۔

Published: undefined

اس کے مقابلے میں گزشتہ دس برسوں کے دوران 27 رکنی یورپی یونین میں ساڑھے چھ لاکھ کے قریب افغان مہاجرین پناہ لیے ہوئے ہیں اور ان میں سے بھی زیادہ تر جرمنی، ہنگری، سویڈن اور یونان میں آباد ہیں۔ یورپی رہنماؤں کی کوشش ہے کہ اب کی بار بھی افغان مہاجرین پڑوسی ممالک ہی میں پناہ لیں اور اس ضمن میں وہ پڑوسی ممالک کو مالی معاونت کے ذریعے افغانوں کو پناہ دینے پر رضامند کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

Published: undefined

پاکستانی حکومت اپنے حالیہ بیانات میں واضح کر چکی ہے کہ وہ مزید افغان مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دینے کے لیے تیار نہیں۔ اسلام آباد کے مطابق ملکی سکیورٹی اور معاشی صورت حال کے پیش نظر ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔

Published: undefined

پاکستان کو امید ہے کہ افغانستان میں سکیورٹی صورت حال بہتر رہے گی اور افغان شہری دیگر ممالک کا رخ کرنے کی بجائے اپنے ملک میں رہ پائیں گے۔ تاہم مہاجرین کی آمد کے خدشے کے پیش نظر ہفتے کے روز سے پاکستان نے افغانستان سے متصل سرحد کے قریب ہی مہاجر کیمپ بھی بنانے کا منصوبہ بھی تیار کر لیا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined