سماج

’آئی ایس دلہن‘ بچوں کی اسمگلنگ کا شکار بنی تھی، وکلاء دفاع

شام میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ گروپ میں شامل ہونے کے لیے سفر کرنے والی برطانوی لڑکی شمیمہ بیگم نے اپنی شہریت چھننے کے فیصلے کو چیلنج کر دیا ہے۔

’آئی ایس دلہن‘ بچوں کی اسمگلنگ کا شکار بنی تھی، وکلاء دفاع
’آئی ایس دلہن‘ بچوں کی اسمگلنگ کا شکار بنی تھی، وکلاء دفاع 

پیر کو شمیمہ بیگم کے وکلاء نے برطانوی حکومت کے اُس فیصلے کو چیلنج کر دیا، جس میں برطانوی شہریت کی حامل اس لڑکی کو 'اسلامک اسٹیٹ‘ میں شمولیت کے لیے شام کا سفر اختیار کرنے کے سبب شہریت سے محروم کر دیا گیا تھا۔

Published: undefined

وکلاء دفاع نے اس کی دلیل یہ پیش کی ہے کہ شمیمہ بیگم ''اسلامک اسٹیٹ‘‘ کے انتہاپسندوں کی طرف سے ''بچوں کی اسمگلنگ‘‘ کا شکار ہوئی تھی۔ شمیمہ بیگم ان سینکڑوں یورپی باشندوں میں سے ایک ہیں، جو 2019 ء میں داعش کے انتہاپسندوں کی خود ساختہ خلافت کے خاتمے کے بعد مغربی حکومتوں کے لیے ایک بڑا مسئلہ بنی ہوئے ہیں۔

Published: undefined

شمیمہ بیگم کے ساتھ کیا ہوا تھا؟

2015ء میں شمیمہ بیگم 15 سال کی تھی اور مشرقی لندن میں رہتی تھی۔ تب وہ اپنی دو دوستوں، سولہ سالہ خدیجہ سلطانہ اور 15 سالہ امیرہ عباس، کے ساتھ شام چلی گئی، جہاں اُس نے آئی ایس کے ایک جنگجو کے ساتھ شادی کی تھی۔ اس نے تین بچوں کو جنم دیا تاہم ان میں سے ایک بھی زندہ نہ بچ سکا۔ فروری 2019ء میں ایک شامی کیمپ میں برطانوی صحافیوں نے شمیمہ بیگم کو حاملہ پایا۔

Published: undefined

اس لڑکی نے اپنے ابتدائی انٹرویو میں اپنی صورتحال کے بارے میں کسی خاص پچھتاوے کا اظہار نہیں کیا تھا۔ اس پر اُس کے ملک برطانیہ میں بے حد غم و غصہ پیدا ہوا۔ برطانوی میڈیا نے اُس کی کہانی کو خوب اُچھالا اور اُسے '' آئی ایس برائیڈ‘‘ یعنی 'اسلامک اسٹیٹ دلہن‘ کہا جانے لگا۔ ساتھ ہی اُس کی برطانوی شہریت بھی چھین لی گئی۔ شمیمہ بیگم کو داعش کے جنگجوؤں کے ساتھ شام کے کُردوں کے زیر انتظام کیمپ '' روج‘‘ میں بے وطن اور بے یار و مدد گار چھوڑ دیا گیا۔

Published: undefined

وکیل کا بیان

شمیمہ بیگم کی وکیل سامنتھا نائٹس نے شمیمہ کیس کی بھرپور وکالت کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ کے ہوم آفس نے، جس عمل کے ذریعے بیگم کی شہریت ختم کرنے کا فیصلہ کیا، وہ ''غیر معمولی اور زیادہ عجلت میں‘‘ کیا گیا ہے۔ سامنتھا نائٹس کا کہنا ہے کہ حکام اس بات کی تحقیقات کرنے اور اس بات کا تعین کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ آیا شمیمہ کن حالات میں شام پہنچی تھی اور نیز یہ کہ وہ ''اسمگلنگ کا شکار ہونے والی ایک بچی‘‘ تھی۔

Published: undefined

پیر 21 نومبر کو اسپیشل امیگریشن اپیل کمیشن (SIAC) میں شمیمہ کیس کی سماعت گزشتہ سال سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد ہو رہی ہے، جس میں اسے ہوم آفس یا وزارت داخلہ کے خلاف شہریت کا مقدمہ لڑنے کے لیے برطانیہ میں داخل ہونے کی اجازت سے انکار کر دیا گیا تھا۔

Published: undefined

شمیمہ بیگم کی وکیل نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا،''دراصل یہ کیس ایک 15 سالہ برطانوی بچی کا کیس ہے، جسے اُس کے دوستوں کے ہمراہ آئی ایس کی پُرعزم اور مؤثر پروپیگینڈا مشین نے اپنی چال کا نشانہ بنایا۔ ‘‘

Published: undefined

وکیل سامنتھا نائٹس کا مزید کہنا تھا،''ایسے مضبوط شواہد موجود تھے کہ اسے جنسی استحصال اور ایک بالغ مرد سے شادی کے مقاصد کے لیے شام منتقل کیا گیا، اُسے بھرتی کیا گیا اور وہاں پناہ دی گئی۔‘‘

Published: undefined

اس کیس کے بارے میں شائع ہونے والی کتاب

رواں سال کے شروع میں ایک صحافی رچرڈ کرباج نے ایک کتاب شائع کی، جس میں اُس نے انکشاف کیا کہ شمیمہ کو، جو دریں اثناء 23 برس کی ہو چُکی ہے، بمعہ اُس کے دو دوستوں کے، ایک شامی شخص محمد الرشید نے شام پہنچایا تھا۔ مزید یہ کہ یہ شخص کینیڈا کی سکیورٹی سروسز کو معلومات فراہم کر رہا تھا۔ محمد الرشید پر الزام ہے کہ وہ آئی ایس کے اسمگلنگ کے ایک وسیع نیٹ ورک کی شاخ کا انچارج تھا۔

Published: undefined

دریں اثناء شمیمہ بیگم کے ایک دوسرے وکیل تسنیم آکنجے نے پیر کو عدالت کی سماعت سے پہلے ایک بیان میں کہا،'' اسمگلنگ کی اصطلاح کی تعریف مکمل طور پر واضح ہے۔‘‘

Published: undefined

دستاویزی فلم

اپنے ابتدائی تبصروں کے باوجود بیگم نے اپنے اعمال پر پشیمانی اور آئی ایس کے متاثرین کے لیے ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ پچھلے سال ایک دستاویزی فلم میں اس نے کہا کہ شام پہنچنے پر اسے فوری طور پر احساس ہوا کہ داعش خود ساختہ خلافت میں شامل اراکین کی تعداد بڑھانے کے لیے ''لوگوں کو پھنساتی‘‘ ہے اور اس طرح وہ اپنی ویڈیوز (پروپیگنڈا) کو متاثر کن بنا کر پیش کرتی ہے۔

Published: undefined

ایک اندازے کے مطابق تقریباً 900 افراد نے برطانیہ سے شام اور عراق کا سفر کر کے داعش میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ان میں سے تقریباً 150 کے بارے میں خیال ہے کہ ان کی شہریت چھین لی گئی ہے۔

Published: undefined

انسانی حقوق کے گروپ Reprieve نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس وقت 20 سے 25 برطانوی خاندان، جن میں 36 بچے بھی شامل ہیں، کردوں کے زیر کنٹرول کیمپوں میں اب بھی موجود ہیں، جہاں آئی ایس کے جنگجوؤں کے مشتبہ رشتہ داروں کو رکھا گیا ہے۔ واضح رہے کہ دیگر یورپی ممالک بھی اپنے شہریوں کی شام سے واپسی کے معاملات طے کرنے کے طریقہ کار کی تلاش میں ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined

,
  • ’بی جے پی نے نوجوانوں کو دھوکہ دیا‘، کانگریس امیدوار آنند شرما نے کانگڑا میں کی انتخابی مہم کی شروعات

  • ,
  • لوک سبھا انتخاب 2024: ’زمین پر حالات بدل رہے ہیں...‘، جگنیش میوانی سے امئے تروڈکر کا انٹرویو