سماج

امریکہ: کرائے کے قاتل کی مدد سے بیوی کا قتل کرنے والے کو سزائے موت دے دی گئی

65 سالہ شخص کو منگل کو دن میں سزائے موت دی جانی تھی، تاہم عدالتی کارروائی کی وجہ سے کئی گھنٹوں کی تاخیر ہوئی۔ سابق پولیس افسر کرائے کے قاتلوں کی مدد سے اپنے بیوی کے قتل کرنے کے مجرم تھے۔

امریکہ: کرائے کے قاتل کی مدد سے بیوی کا قتل کرنے والے کو سزائے موت دے دی گئی
امریکہ: کرائے کے قاتل کی مدد سے بیوی کا قتل کرنے والے کو سزائے موت دے دی گئی 

امریکی ریاست ٹیکساس کے حکام نے بتایا ہے کہ تقریباً 30 برس قبل، جس سابق پولیس افسر پر اپنی بیوی کو قتل کرنے کے لیے کرائے کے قاتل کی خدمات حاصل کرنے کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی، انہیں منگل کی رات کو آخری لمحات کی قانونی چارہ جوئی کے بعد موت کی سزا دے دی گئی۔

Published: undefined

حکام کے مطابق 65 سالہ رابرٹ فریٹا کو منگل کو دن میں ہی سزائے موت دی جانی تھی، تاہم ٹیکساس کے جج کے ایک اچانک فیصلے کی وجہ سے کئی گھنٹوں تک مہلک انجیکشن کی مدد سے سزائے موت پر عمل ٹل گیا۔

Published: undefined

آخری عدالتی چارہ جوئی

منگل کی صبح ایک ہنگامی سماعت کے بعد ڈسٹرکٹ جج کیتھرین ماؤزی نے اپنے فیصلے میں کہا کہ حکام کا موت دینے کے لیے جس دوا کا استعمال کرنے کا ارادہ ہے وہ استعمال نہیں کی جا سکتی، کیونکہ یہ ''غالباً ایک غیر قانونی عمل ہو گا، کیونکہ اس دوا کی میعاد ختم ہونے کا امکان زیادہ ہے۔''

Published: undefined

رابرٹ فریٹا نے موت کی سزا کے منتظر متعدد دیگر قیدیوں کے ساتھ مل کر آخری لمحات میں عدالت میں اپیل دائر کی تھی، جس میں یہ دلیل دی گئی تھی کہ معیاد ختم ہونے والی مہلک دوا 'پینٹو باربیٹل' کا استعمال ایک ظالمانہ سزا ہو گی اس لیے امریکی آئین کے تحت اس کے استعمال پر روک لگنی چاہیے۔

Published: undefined

ضلعی سطح کی عدالت نے روک لگا دی، تاہم ٹیکساس کی اعلی عدالت نے ماؤزی کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اس سزا پر عمل کرنے کا حکم دیا۔ ریاستی سپریم کورٹ نے مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مہلک انجکشن کے استعمال کی اجازت دے دی۔ ٹیکساس کے محکمہ انصاف کی طرف سے منگل کی رات کو ایک بیان میں کہا گیا کہ فریٹا کو شام کے تقریباً سات بج کر 50 منٹ پر مردہ قرار دیا گیا اور موت سے قبل انہوں نے اپنا کوئی آخری بیان بھی نہیں دیا۔

Published: undefined

رابرٹ فریٹا پر الزام کیا تھا؟

رابرٹ فریٹا سن 1994سے ہی جیل میں تھے، جب استغاثہ نے ان پر اپنی اہلیہ کو قتل کرنے کے لیے اپنے ایک جاننے والے سے رابطہ کرنے کا الزام عائد کیا، جس نے 33 سالہ فرح فریٹا کو قتل کرنے کے لیے انہیں کرائے کے قاتل کی خدمات حاصل کرنے میں مدد فراہم کی تھی۔

Published: undefined

قانونی دستاویزات کے مطابق میاں اور بیوی میں طلاق اور اپنے تین بچوں کی تحویل کے حوالے سے تلخ لڑائی چل رہی تھی۔ عدالتی دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ رابرٹ فریٹا نے اس وقت ''اپنے بہت سے دوستوں اور جاننے والوں سے درخواست کی کہ وہ اسے مار ڈالیں یا کسی ایسے شخص کے بارے میں بتائیں، جو اسے قتل کر سکتا ہو۔''

Published: undefined

ابتدائی طور پر ان کے اکثر دوستوں کا خیال یہ تھا کہ شاید وہ مذاق کر رہے ہیں، یا پھر مبالغہ آرائی سے کام لے رہے ہیں، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ جب وہ اس بارے میں اور زیادہ بات کرتے رہے، تو ان میں سے کچھ کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ وہ اس معاملے میں سنجیدہ ہیں۔

Published: undefined

پھر فریٹا نے اپنے جم کے ایک ساتھی شخص سے رابطہ کیا، جس نے ایک کرایے کے قاتل کی خدمات فراہم کیں۔ امریکی میڈیا کے مطابق فریٹا نے اس شخص کو اپنی بیوی کے قتل کے لیے ایک ہزار ڈالر ادا کیے تھے۔ فریٹا کو پہلی بار سن 1996میں موت کی سزا سنائی گئی تھی، لیکن 2007 میں ایک تکنیکی وجہ سے اس فیصلے کو پلٹ دیا گیا تھا۔ پھر دوسری سماعت کے بعد سن 2009 میں انہیں پھر سے سزائے موت سنائی گئی۔

Published: undefined

ان کے وکلاء نے متعدد اپیلیں دائر کیں تاہم وہ سب ناکام ہوئیں۔ حتیٰ کہ وکلاء نے امریکی سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا اور ان کی پھانسی کو روکنے کے لیے یہ دلیل بھی پیش کی گئی کہ مقدمے میں ایک گواہ سے گواہی ہیپنوسس کی مدد سے حاصل کی گئی تھی، تاہم کامیابی نہیں ملی۔

Published: undefined

امریکہ میں موت کی سزا کے لیے ہلاکت خیز انجیکشن 'پینٹو باربیٹل' استعمال کیا جاتا ہے، جس کی سپلائی بہت کم ہو گئی ہے۔ بہت سی دوا ساز کمپنیوں نے سزائے موت سے کنارہ کشی کے لیے اس دوا کی پیداوار کو اس قدر محدود کر دیا ہے کہ اس کا ملنا بھی اب مشکل ہو گیا ہے۔ رواں برس کے ابھی محض گیارہ روز گزرے ہیں اور رابرٹ فریٹا امریکہ میں پھانسی کی سزا پانے والے دوسرے قیدی ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined