کابل میں ایک شیعہ مسجد کے باہر طالبان کے مسلح فائٹرز چوکس ہو کر کھڑے ہوئے ہیں تاکہ اندر موجود ہزارہ کمیونٹی کے افراد سکون کے ساتھ نماز ادا کر سکیں۔ طالبان اور ہزارہ کمیونٹی کے درمیان یہ ایک 'نیا رشتہ‘ ہے کیوں کہ ماضی میں ایک عرصے تک طالبان کے حملہ آور اس کمیونٹی کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔ تاہم اب ہزارہ کمیونٹی کے سب سے بڑے دشمن داعش یا 'اسلامک اسٹیٹ‘ کے جنگجو ہیں اور طالبان اسی وجہ سے اس کمیونٹی کی حفاظت پر معمور ہیں۔
Published: undefined
ابو الفضل العباس کے باہر ایک ہزارہ محافظ سہراب بھی موجود ہے۔ اس کا ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ طالبان کے ساتھ کام کرتے ہوئے مطمئن ہیں، ''وہ اب ہماری مسجد میں کبھی کبھار نماز بھی ادا کرتے ہیں۔‘‘ اس ہزارہ محافظ کا مکمل نام سکیورٹی وجوہات کی بناء پر نہیں بتایا جا رہا۔
Published: undefined
تاہم ہر کوئی طالبان سے ابھی بھی مطمئن نہیں ہے۔ وہاں پر سید عقیل بھی اپنی اہلیہ اور آٹھ سالہ بیٹی کے ساتھ موجود تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان ابھی بھی جہادی لباس پہنے ہوئے ہیں۔ جو یہاں آتا ہے، تو اسے ابھی بھی یہ محافظ کم اور جہادی زیادہ لگتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا، ''اگر حلیہ دیکھا جائے تو ابھی بھی طالبان اور داعش کے جنگجوؤں میں فرق کرنا مشکل ہے۔‘‘
Published: undefined
اقتدار میں آنے کے بعد سے طالبان خود کو اعتدال پسندوں کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ ماضی میں جب طالبان کی حکومت آئی تھی، تو وہ بہت مختلف تھے اور اس وقت ہزارہ کمیونٹی کو ہر طرح سے دبانے کی کوشش کی گئی تھی۔ طالبان خود کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم بھی کروانا چاہتے ہیں اور اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ ملک کی اقلیتوں کی حفاظت کریں۔
Published: undefined
دوسری جانب بہت سے ہزارہ اب بھی شک و شبہات کے شکار ہیں۔ ان کے مطابق طالبان کی زیادہ تر تعداد پشتون ہے اور وہ کبھی بھی انہیں برابر کے افغان تسلیم نہیں کریں گے۔ ہزارہ کمیونٹی کے رہنما کئی مرتبہ طالبان قیادت سے ملاقاتیں کر چکے ہیں اور انہیں حکومت میں شامل کرنے کی اپیل بھی دہرا چکے ہیں۔ اس حوالے سے طالبان کا فی الحال کوئی ٹھوس اقدام سامنے نہیں آیا۔
Published: undefined
کئی ہزارہ افراد کے مطابق انفرادی سطح پر متعدد طالبان جنگجو اب بھی ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھتے ہیں۔ انہیں خوف ہے کہ طالبان کسی بھی وقت اپنی پالیسی تبدیل کر سکتے ہیں۔ ایک ہزارہ مولوی محمد جواد کا کہنا تھا، ''ماضی کے مقابلے میں طالبان کچھ بہتر ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کوئی ایک یا یکساں قانون نہیں ہے۔ ہر انفرادی طالب کا اپنا ایک قانون ہے۔ یہی ایک وجہ ہے کہ لوگ اب بھی ان سے خوفزدہ ہیں۔‘‘
Published: undefined
تاہم ماضی کے مقابلے میں بہت سی تبدیلیاں واضح ہیں۔ مثال کے طور پر طالبان نے شیعہ کمیونٹی کو اپنی تمام تر مذہبی رسومات کی ادائیگی کی اجازت فراہم کر رکھی ہے اور اس میں عاشور بھی شامل ہے۔
Published: undefined
طالبان نے ابتدائی طور پر ہزارہ کمیونٹی سے ہتھیار ضبط کر لیے تھے لیکن داعش کے خونریز حملوں کے بعد طالبان نے زیادہ تر کیسز میں ہتھیار واپس کر دیے ہیں تاکہ یہ کمیونٹی اپنی حفاظت خود بھی کر سکے۔
Published: undefined
جمعے کے روز طالبان کے فائٹر ہزارہ کمیونٹی کی تقریبا ہر مسجد کے باہر حفاظت کے لیے موجود ہوتے ہیں۔ طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا اس حوالے سے کہنا ہے، ''ہم سب کو ایک محفوظ ماحول فراہم کر رہے ہیں، خاص طور پر ہزارہ کمیونٹی کو۔ ان سب کو افغانستان میں ہی رہنا چاہیے، ملک کو چھوڑ کر جانا کوئی اچھی آپشن نہیں ہے۔‘‘
Published: undefined
بین الاقوامی برادری طالبان پر دباؤ ڈالے ہوئے ہے کہ وہ قومی حکومت تشکیل دیتے ہوئے اقلیتوں کو بھی اس میں شامل کریں۔طالبان کی کابینہ میں تقریبا سبھی مرد ہیں اور ان کا تعلق بھی ان کی اپنی ہی تحریک سے ہے۔ انتظامیہ میں اعلیٰ ترین درجے کا جو عہدہ ایک ہزارہ کمیونٹی کے شخص کو دیا گیا ہے، وہ نائب وزیر صحت کا ہے۔چند ہزارہ صوبائی عہدوں پر فائز ہیں لیکن یہ وہ ہزارہ ہیں، جو بہت پہلے طالبان تحریک میں شامل ہو گئے تھے اور انہی کے نظریات کے حامی ہیں۔
Published: undefined
ایک سابق رکن پارلیمان علی اکبر جمشیدی کا کہنا تھا، ''ہزارہ کمیونٹی کو کابینہ کے ساتھ ساتھ انٹیلی جنس اور سکیورٹی ایجنسیوں میں شامل کیا جانا چاہیے، ''طالبان ہم سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ان کے پاس مستقل کی حکومت تشکیل دینے کا موقع موجود ہے لیکن وہ اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھا رہے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined