سماج

نیپال: پراچند کے وزیراعظم بننے سے بھارت فکرمند

نیپال میں پشپ کمل دہل عرف 'پراچند' نئے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھال لیا ہے۔ ماؤ نواز تحریک کے رہنما کی اقتدار میں واپسی پہلے سے ہی پیچیدہ تعلقات سے دوچار بھارت کے لیے فکرمندی کا باعث ہو سکتی ہے۔

تصویر آئی اے این ایس
تصویر آئی اے این ایس 

پراچند نے بھارت کے قریب ترین پڑوسی نیپال میں سن 1996 سے 2006 کے درمیان خانہ جنگی کے دوران ماؤ نواز گوریلا تحریک کی قیادت کی تھی۔ ملک سے 240 سالہ شہنشاہیت کا خاتمہ اور پارلیمانی جمہوریت کے قیام میں بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔

Published: undefined

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف، امریکی صدر جو بائیڈن اور بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی انہیں وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے پر مبارک باد دی ہے۔

Published: undefined

بھارت کی فکرمندی

پشپ کمل دہل نیپال کے 44 ویں وزیر اعظم ہوں گئے اور اس عہدے پر تیسری مرتبہ فائز ہوگئے ہیں۔ وہ سن 2008 میں نیپال کے پہلے وزیر اعظم بنائے گئے تھے اور سن 2016 میں بھی اس عہدہ پر فائز رہے تھے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پراچند کے نیپال کے وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہونے سے بھارت کی فکرمندیاں بڑھ سکتی ہیں، کیونکہ کٹھمنڈو اور دہلی کے درمیان تعلقات پہلے کی طرح خوشگوار نہیں رہے ہیں۔

Published: undefined

بین الاقوامی امور کے ماہر اور مشہور تھنک ٹینک آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن میں فیلو ششانک مٹو کا کہنا ہے کہ کرسمس کے روز پراچند کی ڈرامائی واپسی بھارت کے لیے حیران کن ہے۔ بالخصوص اس تناظر میں کہ پڑوسی کے حوالے سے بھارت کی پالیسی اور چین کے بڑھتے ہوئے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے نیپال دہلی کے لیے خاصا اہمیت کا حامل ہے۔ مٹو نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ کم از کم یہ بات تو طے ہے کہ دہلی اور کٹھمنڈو کے درمیان پیچیدہ رشتوں کے تناظر میں پراچند کی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر واپسی بھارت کے لیے فکرمندی کا باعث ہے۔

Published: undefined

پراچند اور بھارت کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ

مٹو کا کہنا تھا کہ پراچند اس ماؤ نواز تحریک کے قائد رہ چکے ہیں، جس نے نیپال میں بھارت کے اثرو رسوخ کی مخالفت کی تھی اور بھارت کی حمایت یافتہ نیپال شاہی فوج کے خلاف جنگ کی تھی۔ حالانکہ انہوں نے ماؤنواز جماعتوں کو سیاسی دھارے میں لانے اور ملک میں جمہوری تبدیلی کو مستحکم کرنے میں بھارت کے ساتھ مل کر کام بھی کیا تھا۔

Published: undefined

پشپ کمل دہل نے اپنے ملک میں خانہ جنگی کے دوران ایک طویل عرصے تک بھارت میں روپوشی کی زندگی گزاری اور یہیں سے ماؤ نواز تحریک کی قیادت کی۔ پراچند اور بھارت کے تعلقات میں کافی اتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں۔

Published: undefined

پراچند نے سن 2009 اور سن2017 میں خود کو اقتدار سے محروم کیے جانے کے لیے بھارت کو مورد الزام ٹھہرایا تھا اور انہوں نے چین کے ساتھ نیپال کی قربت بڑھانی شرو ع کردی تھی۔ بعض علاقائی معاملات پر بھی نئی دہلی کے ساتھ ان کا اختلاف رائے ہو چکا ہے۔ اس کے باوجود وہ بھارت کے ساتھ وقتاً فوقتاً بات چیت کرتے رہے ہیں اور رواں برس جولائی میں نئی دہلی میں حکمراں بی جے پی کے صدر جے پی نڈا کے ساتھ ملاقات کی تھی۔

Published: undefined

نیپال اور چین کی بڑھتی ہوئی قربت

پراچند نے نیپال میں شہنشاہیت کے خاتمے اور جمہوریت کے قیام کے بعد ملک کی تقریباً نصف صدی پرانی ایک روایت توڑدی تھی۔ انہوں نے اپنے پیش رو حکمرانوں کے برخلاف سن 2008 میں ملک کے پہلے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلا دورہ بھارت کا کرنے کے بجائے چین کا کیا تھا۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پراچند اس بار بھی اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر بیجنگ ہی جائیں گے۔

Published: undefined

پراچند کے سب سے اہم اتحادی حلیف کے پی شرما اولی نے اپنے دور حکومت میں بیجنگ کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنے کا کام تیز کردیا تھا۔ انہی کے دور میں کالا پانی اور لیپو لیکھ سمیت کئی علاقوں میں بھارت اور نیپال کے درمیان علاقائی تنازعات زیادہ ابھر کر سامنے آئے۔

Published: undefined

دفاعی امور کے ماہر ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل پرکاش کٹوچ کا کہنا ہے کہ کمیونسٹوں کے نیپال میں ایک بار پھر اقتدار میں آنے کے بعد بھارت کو یہ توقع رکھنی چاہیے کہ کٹھمنڈو علاقائی مسائل کو ایک بار پھر ہوا دے گا۔ اور یہ ملک بھارت مخالف چین پاکستان اتحاد کی حمایت کرے گا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined