سماج

افغانستان: بچیوں کی تعلیم کو ایک بڑا دھچکا

افغانستان میں طالبان کی حکومت کی جانب سے حکم دیا گیا کہ صرف لڑکوں اور مرد اساتذہ کو سیکنڈری تعلیم کے لیے اسکولوں میں جانے کی اجازت ہو گی۔

افغانستان: بچیوں کی تعلیم کو ایک بڑا دھچکا
افغانستان: بچیوں کی تعلیم کو ایک بڑا دھچکا 

سخت اسلامی نظریات کے حامل عسکریت پسند گروپ طالبان کی جانب سے یہ کہا گیا تھا کہ وہ انیس سو نوے کی دہائی کے مقابلے میں اپنی اس حکومت میں نرم رویہ اپنائیں گے۔ طالبان کی سابقہ حکومت میں خواتین کو کام کرنے اور تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں تھی۔

Published: undefined

تاہم طالبان کی عبوری حکومت کی وزارت برائے تعلیم کے اس حالیہ بیان سے خواتین کے حقوق کو بظاہر ایک بڑا دھچکا پہنچا ہے۔ اس بیان میں کہا گیا ہے،'' سب مرد اساتذہ اور طلبہ اپنے تعلیمی اداروں میں جائیں۔'' جمعے کی شام جاری کیے گئے اس بیان میں خواتین کے حوالے سے کچھ نہیں واضح کیا گیا۔ اکثر سیکنڈری اسکولوں میں عام طور پر تیرہ سال سے لے کر اٹھارہ سال کی عمر کے اسٹوڈنٹس ہوتے ہیں۔ اس جنگ زدہ ملک میں زیادہ تر سیکنڈری اسکول لڑکے اور لڑکیوں کے لیے علیحدہ ہیں۔ اب افغانستان میں طالبان کی فتح کے بعد سے ایسے کئی اسکول بند ہیں۔

Published: undefined

گزشتہ بیس سالوں میں لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے اس قدامت پسند معاشرے میں خاصی تبدیلیاں آئی تھیں۔ اسکولوں میں جانے والی طالبات کی شرح میں اضافہ ہوا اور ملک میں خواتین کی خواندگی کی شرح تیس فیصد تک پہنچ گئی۔ لیکن یہ تبدیلی بڑے شہروں میں دیکھی گئی۔

Published: undefined

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں ''بچیوں کے مستقبل کے حوالے سے کافی پریشان ہیں۔ یہ انتہائی اہم ہے تمام لڑکیاں تعلیم حاصل کر پائیں اور اس کے لیے ہمیں خواتین ٹیچرز کی ضرورت ہے۔''

Published: undefined

پرائمری اسکول پہلے ہی کھل چکے ہیں۔ ان اسکولوں میں بھی لڑکے اور لڑکیاں علیحدہ علیحدہ کلاس رومز میں بیٹھتے ہیں۔ طالبان کی جانب سے ایک حالیہ اعلان میں کہا گیا تھا کہ خواتین کو یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ہو گی لیکن انہیں مکمل پردا کرنا ہوگا۔

Published: undefined

طالبان کی جانب سے خواتین کی وزارت کو بھی بند کر دیا گیا ہے اور اسے اسلامی تعلیمات کے نفاذ کو یقینی بنانے والے ادارے میں تبدیل کر دیا گیا۔ جمعے کو اس نئے ادارے کے بورڈ کو وزارت برائے خواتین کے بورڈ کی جگہ نصب کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر ان خواتین کے احتجاج کی ویڈیوز شیئر کی گئیں جو خواتین کی وزارت میں ملازمت کررہی تھیں۔

Published: undefined

گزشتہ بیس سالوں میں ہزاروں افغان خواتین نے سیاست، طب، وکالت، ہوا بازی، پولیس، کھیل اور دیگر شعبوں میں اپنا نام بنایا ہے۔ غربت کے شکار اس ملک میں بہت سی خواتین نوکری کرنے پر مجبور ہیں۔ لیکن طالبان اپنے ابتدائی اقدامات میں ان کی حوصلہ افزائی کرتے دکھائی نہیں دے رہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined