سماج

مسلم خواتین کی 'نیلامی‘ والے ایپ پر ایک اور کیس درج

اترپردیش کے بعد دہلی پولیس نے بھی ان نامعلوم افراد کے خلاف کیس درج کر لیا ہے, جنہوں نے ایک ایپ پر مسلم خواتین کی تصاویرو دیگر تفصیلات 'فائنڈ یور سلّی ڈیل‘ کے عنوان سے ”نیلامی" کے لیے اپ لوڈ کر دی تھیں

بھارت: مسلم خواتین کی 'نیلامی‘ والی ایپ پر ایک اور کیس درج
بھارت: مسلم خواتین کی 'نیلامی‘ والی ایپ پر ایک اور کیس درج 

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی پولیس کے ترجمان چنمئے بسوال نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”ہمیں نیشنل سائبر کرائم پورٹل کی جانب سے ایک شکایت موصول ہوئی ہے۔ یہ شکایت سلّی ڈیل نامی ایک ایپ کے سلسلے میں ہے۔ جنسی ہراسانی کے دفعات کے تحت کیس درج کیا گیا ہے اور ہم اس کی تفتیش کر رہے ہیں۔"

Published: undefined

اس سے قبل قومی خواتین کمیشن اور دہلی خواتین کمیشن نے بھی دہلی پولیس کمشنر کو نوٹس بھیج کر اس معاملے میں کارروائی کرنے کے لیے کہا تھا۔

Published: undefined

معاملہ کیا ہے؟

گزشتہ اتوار اور پیر کو متعدد مسلم خواتین کی تصویروں کے ساتھ 'سلّی فار سیل‘ نام سے ایک اوپن سورس ایپ بنا کر اسے GitHub نامی ایک مقبول ہوسٹنگ پلیٹ فارم پر جاری کیا گیا۔'سُلّی‘ دراصل مسلم خواتین کے لیے توہین آمیز لفظ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

Published: undefined

اس ایپ میں استعمال ہونے والی مسلم خواتین کی تصاویر اور دیگر معلومات ٹوئٹر سے لی گئی تھیں۔ اس ایپ میں اسّی سے زائد مسلم خواتین کی تصاویر، ان کے نام اور ٹوئٹر ہینڈلز دیے گئے تھے۔ ان خواتین میں صحافی اور پائلٹ بھی شامل تھیں۔ اس ایپ کے سب سے اوپر لکھا تھا،”فائنڈ یو ر سلّی ڈیل"۔ اس پر کلک کرنے پر ایک مسلم خاتون کی تصویر، نام اور ٹوئٹر ہینڈل کی تفصیلات سامنے آجاتی تھی۔

Published: undefined

اس ایپ کو ہوسٹنگ پلیٹ فارم پر ڈالنے کے بعد متعدد مسلم خواتین کو ہراساں کرنے کی شکایتں موصول ہوئیں۔ بعض خواتین نے اس سلسلے میں پولیس سے شکایت بھی کی تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ بیشتر نے سماجی بدنامی کے خوف اور قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے شکایت درج کرانا مناسب نہیں سمجھا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر اس طرح کی ہراسانی سے بہت خوف زدہ ہیں۔

Published: undefined

سخت مذمت

متعدد مسلم تنظیموں کے علاوہ صحافیوں کی انجمنوں نے بھی اس کی سخت مذمت کرتے ہوئے پولیس سے قصورواروں کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے مسلم خواتین بشمول صحافیوں کے ساتھ سوشل میڈیا پر اہانت آمیز رویے پر سخت اعتراض کیا ہے۔

Published: undefined

ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا کے جنرل سکریٹری سنجے کپور نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”یہ درپردہ حملہ دراصل سماج کے بعض طبقات میں خواتین اور بالخصوص مسلم عورتوں نیز موجودہ حکومت کی کھل کر نکتہ چینی کرنے والی خواتین کے تئیں درپردہ منافرت کی علامت ہے۔"

Published: undefined

ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا کے جنرل سکریٹری سنجے کپور نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”یہ درپردہ حملہ دراصل سماج کے بعض طبقات میں خواتین اور بالخصوص مسلم عورتوں نیز موجودہ حکومت کی کھل کر نکتہ چینی کرنے والی خواتین کے تئیں درپردہ منافرت کی علامت ہے۔"

Published: undefined

سنجے کپور نے بتایا کہ انہوں نے قومی خواتین کمیشن نیز قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو خط لکھ کر کہا ہے کہ اس مسئلے پر فوراً کارروائی کریں اور قصورواروں کا پتہ لگا کر انہیں سخت سزائیں دیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل میڈیا اور سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کو بھی ایسی حرکتوں پر لگام لگانے کے لیے مناسب اور فوری اقدامات کرنے چاہییں۔

Published: undefined

سوشل میڈیا سے حذف

معاملہ سنگین ہوتے دیکھ ہوسٹنگ پلیٹ فارم گٹ ہب نے اس ایپ کو ہٹا دیا۔ گٹ ہب کی سی ای او ایریکا بریسکیا نے ایک ٹوئٹ کرکے کہا،”ہم نے اس معاملے میں یوزر اکاؤنٹ معطل کر دیا ہے۔ رپورٹ کی بنیاد پر معاملے کی تفتیش شروع کر دی ہے۔ گٹ ہب کی پالیسیاں ایسے مواد، جو ہراساں کرنے، تفریق کرنے اور تشدد کو بڑھاوا دینے والوں، کے خلاف ہیں۔ یہ مواد ہماری پالیسیوں کے خلاف ہے۔" گٹ ہب نے تاہم یہ نہیں بتایا کہ اس کے پلیٹ فارم پر اس طرح کا مواد کیسے شائع ہو گیا۔

Published: undefined

یہ سلسلہ پرانا ہے

مسلم خواتین کی تصاویر کو چرا کر سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ڈالنے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ماضی میں اس طرح کے متعدد واقعات ہوتے رہے ہیں۔

Published: undefined

گزشتہ مئی میں ہی عید کے دوران دائیں بازو کے عناصر نے مسلم خواتین کی تصاویر چرا کر ٹوئٹر اور یو ٹیوب پر'نیلامی‘ کے لیے ڈال دی تھیں۔ حتی کہ یوٹیوب پر مسلم خواتین کی ویڈیو ڈال کر لکھا گیا تھا،”ان کا دیدار کرکے اپنی آنکھوں کو سکون پہنچائیں۔"

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined