سرخ اینٹوں والے مکانات، بڑے دروازوں والے گودام، صاف ستھری گلیاں، پہلی نظر میں یہ قصبہ یورپی ممالک بیلجیم اور نیدرلینڈز کے عام سرحدی قصبوں جیسا ہی نظر آتا ہے۔ لیکن حقیقت میں بارلے کی حیثیت انتہائی منفرد ہے۔ یہاں آپ ناشتہ ایک ملک میں تیار کر سکتے ہیں اور اسے کھا دوسرے ملک میں سکتے ہیں۔ یا پھر آپ ایک ملک میں کرسی رکھ کر بیٹھیں اور دوسرے ملک کی سرحد کے اندر رکھا ٹیلی وژن دیکھ سکتے ہیں۔ بارلے میں یہ بھی ممکن ہے کہ میاں بیوی ایک ہی بیڈ پر سوئیں لیکن ایک ہی وقت میں دونوں الگ الگ ملکوں میں لیٹے ہوں۔
Published: undefined
اصل میں بارلے کے قصبے کے کچھ حصے بیلجیم اور کچھ نیدرلینڈز کی سرحد کے اندر آتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے مابین سرحد لوگوں کے گھروں سے ہوتی ہوئی گزرتی ہے۔ سرحد کے نشانات سفید کراس سے لگائے گئے ہیں اور یہی نشانات بارلے کی پہچان بھی ہیں۔
Published: undefined
اس عجیب و غریب سرحد کا تعلق قرون وسطیٰ کے امیر خاندانوں کے درمیان جائیداد کی تقسیم سے بھی ہے۔ مقامی سیاحتی آفس کے سربراہ ولیم فان گول کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''مثال کے طور پر 1198ء میں پہلے ڈیوک ہینری آف بریبنٹ نے یہ علاقہ لارڈ آف بریڈا کو پٹے پر دے دیا۔ بعدازاں لارڈ آف بریڈا کو وہ زمین اپنے پاس رکھنے کی اجازت دے دی گئی، جو زراعت کے لیے استعمال نہیں ہوتی تھی۔ ڈیوک نے اپنے لیے ذرخیز زمین رکھی۔‘‘
Published: undefined
سن 1830ء میں ہالینڈ سے آزادی کے بعد بیلجیم کے لیے سرحدوں کا تعین ضروری تھا۔ اس وقت جنگ میں بچ جانے والوں نے بحیرہ شمالی سے جرمن ریاستوں تک تو سرحد کا تعین کر لیا لیکن جب وہ اس علاقے تک پہنچے تو یہاں سرحد کے مسائل بعد میں حل کرنے کے لیے چھوڑ دیے گئے۔
Published: undefined
لیکن ایسا 165 برس بعد بھی نہ ہوا۔ پھر سن 1995ء میں یہاں دو میونسپیلیٹیز بنا دی گئیں۔ بیلجیم میں اس کا نام بارلے ہیرٹوگ جبکہ ہالینڈ میں بارلے ناساؤ رکھا گیا۔ اس میں مجموعی طور پر 60 انکلیوز بھی شامل کیے گئے اور اس حوالے سے یہ دنیا کا منفرد علاقہ ہے۔
Published: undefined
تاہم سرحد کے تعین نے بارلے کے رہائشیوں کے لیے صورتحال کو آسان نا بنایا۔ کئی گھر، باغ، گلیاں، دکانیں وغیرہ دونوں ممالک میں تقسیم ہو چکے تھے۔ مستقل تنازعے سے بچنے کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ جس گھر کا داخلی دروازہ، جس ملک کی سرحد کے اندر ہو گا، اس کے مکینوں کو اسی ملک کی شہریت دی جائے گی۔
Published: undefined
لیکن اس سے بارلے کے لوگوں کی الجھنیں مزید بڑھ گئیں۔ سن 1995 میں ڈچ حکام نے ایک خاتون کے دروازے پر دستک دی، جو 68 برسوں سے بیلجیم کی شہری تھی، ''آپ کا داخلی دروازہ ہالینڈ میں ہے اور اب آپ ہالینڈ کی شہری ہیں۔ پلیز، اب آپ ایک نیا پاسپورٹ بنوائیں۔‘‘
Published: undefined
لیکن اس خاتون کے احتجاج کے بعد ایک نیا حل نکالا گیا۔ خاتون کے گھر کی ایک کھڑکی کو توڑ کر اس کا نیا دروازہ بنایا گیا، جو بیلجیم میں تھا اور اس طرح اسے اپنا پرانا پاسپورٹ رکھنے کی اجازت مل گئی۔
Published: undefined
بارلے میں ہر چیز دو مرتبہ ہے۔ ایک ہی علاقے کے دو نام، دو میئر، دو ملکوں کی انتظامیہ، دو پوسٹ آفس لیکن ان سب کو چلانے والی کمیٹی ایک ہی ہے تاکہ مقامی مسائل کا فوری حل نکالا جائے اور تعاون کو مزید بہتر بنایا جائے۔ مثال کے طور پر دونوں سرحدوں میں آنے والے علاقوں کی صفائی، منقسم گھروں کے کوڑے کو ٹھکانے لگانے کی ذمہ داری اور ایسے ہی دیگر چھوٹے چھوٹے مسائل حل کرنا اسی کمیٹی کی ذمہ داری ہے۔
Published: undefined
بیلجیم میں واقع بارلے کے مئیر فرانز ڈے بونٹ کا کہنا تھا، ''ہم بات چیت کرتے ہیں، اس میں صبر کی ضرورت ہوتی ہے، ہم غور سے پہلے سب کی بات سنتے ہیں اور پھر کوئی حل تجویز کرتے ہیں۔ آپ دوستانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے اور بات چیت کے ذریعے ہر مسئلے کا حل تلاش کر لیتے ہیں۔‘‘
Published: undefined
آج کل کورونا وائرس کی وجہ سے بیلجیم اور نیدرلینڈز کے حفاظتی قوانین ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور اس علاقے کے رہائشیوں کو ایک مرتبہ پھر نئے مسائل کا سامنا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined