سماجی

شہید شیر میسور ٹیپو سلطان کی 222 ویں یوم شہادت کے موقع پر خصوصی پیش کش

فرانسیسی افسر نے ٹیپو کو بھاگ کا مشورہ دیا، مگر ٹیپو اپنے مشہور مقولے ’’شیر کی ایک دن کی موت سوسالہ گیدڑ کی زندگی سے بہتر ہے‘‘ پر کھرے اترے اور 4 مئی، 1799ء کو میدان جنگ میں شہید ہوگئے۔

شہید شیر میسور ٹیپو سلطان
شہید شیر میسور ٹیپو سلطان 

شیر میسور ٹیپو سلطان ہندوستان کے اس عظیم دلیر حاکم کا نام ہے جس کی شہادت کی خبر ملتے ہی انگریز جنرل ہارس خوشی کے مارے جھومنے لگا تھا اور اپنے سب سے بڑے دشمن کی نعش کو دیکھتے ہی فرط مسرت سے چیخ اٹھا کہ ’’آج ہندوستان ہمارا ہے‘‘ جنگی حکمت عملی، شجاعت اور بہادری کے لحاظ سے ٹیپو سلطان کا شمار فرانس کے نیپولین بونا پارٹ اور سلطان ایوبی کی صف میں ہوتا ہے۔ مشہور اسکاٹش شاعر اور تاریخی ناول نویس سروالٹر اسکاٹ نے ٹیپو سلطان کی شکست اور شہادت پر جو ردعمل ظاہر کیا وہ ٹیپو سلطان کے لیے سنہری خراج عقیت کی حیثیت رکھتا ہے کہ’’اگرچہ نیپولین جس کی نظم ونسق، کردار اور سیاسی نظریات ٹیپو سلطان سے کچھ مختلف تھے، مگر میرے خیال میں ان کو کم از کم وہی جرآت مندی، عزم، مستقل مزاجی اور بہادری کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا جس کا مظاہرہ ٹیپو سلطان نے کیا اور اپنی دارالحکومت کی حفا ظت کرتے ہوئے جواں مردی سے تلوار ہاتھ میں لیے شہادت قبول کی تھی‘‘۔

Published: undefined

مبالغہ نہ ہوگا اگر یہ کہا جائے کہ شیر میسور ٹیپو سلطان ہندوستان کی جنگ آزادی کے ان اولین سپہ سالاروں میں سرفہرست ہے جو آخری دم تک انگریزوں سے نبرد آزما رہے کہ وطن عزیز پر انگریز غالب نہ آسکیں۔ ارض ہند پر اگر کسی نے انگریزوں کو ناکوں چنے چبوائے تو وہ حیدر علی کے بعد ان کے فرزند ارجمند ٹیپو ن ہی تھے۔

Published: undefined

جب ٹیپو سلطان 10 نومبر 1750ء کو دیواناہلی فورٹ میں پیدا ہوئے۔ اس وقت تک حیدر علی کی قائدانہ خصوصیات اور فوجی حربوں کی شہرت بلندیوں پر پہنچ چکی تھی۔ ٹیپو کو اعلیٰ ذہانت و فراست اور قائدانہ طلسمی صلاحیت ورثے میں ملی تھی، جس کے آگے انگریز بے دست وپا نظر آئے۔ سلطان حیدر علی نے ٹیپو سلطان کی تعلیم وتربیت اور فنون حرب پر خاص توجہ دی۔ ٹیپو سلطان نے محض 15 سال کی عمر میں اپنے والد حیدر علی کے ساتھ انگریزوں کے خلاف پہلی جنگ میں حصہ لیا۔ 17 ؍سال کی عمر میں ٹیپو سلطان کو اہم سفارتی اور فوجی امور کا آزادانہ اختیار دے دیا گیا تھا۔

Published: undefined

برصغیر میں برطانوی نو آبادیاتی نظام کی راہ کے سب سے بڑے کانٹے سلطان حیدر علی اور ٹیپو سلطان تھے جن کے مابین 1767ء تا 1799ء چار جنگیں ہوئیں۔ ٹیپو نے اپنے باپ سلطان حیدر علی کی نگہداشت میں کرنل بیلی، کرنل برتیھ ویٹ سرایر کوٹ اور بریگیڈر جنرل جیمس اسٹوارٹ جیسے آزمودہ کار افسران کو شکست سے دوچار کیا۔ 1767ء پہلی اینگلو میسور جنگ میں، حیدر علی نے انگریزوں کو دذلت آمیز شکست دی اور انہیں صلح کرنے پر مجبور کیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب ہندوستان میں انگریزوں کو ہار کا منھ دیکھنا پڑا۔ اگرچہ 1782ء میں دوسری اینگلو میسور جنگ کے دوران، حیدر علی کی موت ہوگئی، لیکن ٹیپو نے حیدر علی کی کمی محسوس نہیں ہونے دی اور جنگی حکمت عملیوں کے سبب انگریزوں کو بھاری نقصان پہنچایا۔ ٹیپو اور انگریزوں کے مابین منگلور کا معاہدہ 1784ء میں ہوا۔ سلطنت خداد اد انگریزوں کے ساتھ ساتھ ساتھ دیسی ریاستوں کی آنکھوں میں کھٹکتی تھی۔

Published: undefined

دور اندیش شیر میسور فتح علی خاں ہار ماننے والا کہا ں تھے؟ انہوں نے ہندوستان سے انگریزوں کو نکالنے کے لیے زمیں تا آسمان کے قلابے ملا دیے اور کمپنی کے خلاف ایک مضبوط محاذ تشکیل دینے کی حتی الامکان کوشش کی۔ ملک کی دیسی ریاستوں جے پور، جودھپور اور نیپال وغیرہ کو اپنے ایلچی اور خطو ط بھیجے۔ 23؍جون 1785ء کو مغل شہنشاہ شاہ عالم کی خدمت میں عریضہ لکھ کر انگریزوں کے خلاف جنگ کرنے کی اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ ٹیپو سلطان انگریزوں سے بخوبی آشنا تھے کہ فرنگی عفریت کا سیلاب کسی کو نہیں بخشتا، چنانچہ انہوں نے نظام حیدر آباد کو ہر پہلو سے سمجھانے کی سعی کی، مگر نظام اور مرہٹوں نے ٹیپو کی بڑھتی طاقت کو اپنے وجود کے لیے خطرہ سمجھا اور فرنگیوں کے سائے تلے کھڑے ہوگئے۔ ٹیپو نے ہم وطن والیان ریاستوں کے ساتھ ساتھ بیرونی ممالک افغانستان، ایران، ترکی اور امریکہ بالخصوص فرانس سے مدد حاصل کرنے کے لیے ہاتھ بڑھائے، لیکن کون پرائی آگ میں جلتا ہے۔

Published: undefined

ٹیپو سلطان نے ہندوستان کو غلامی سے بچانے کی ہرممکن کوشش کی، لیکن غدار وطن اور نامساعد حالات کی وجہ سے ان کی تمام جدوجہد رائیگاں چلی گئی۔ انگریزوں، مراہٹوں اور نظام کے ناپاک اتحاد کے علاوہ ان کی آستین کے سانپ ’’میر صادق، پنڈت پورنیا، میر غلام علی (لنگڑا) بدرالزماں خاں نائطہ، میر معین الدین، میر قمر الدین، میر قاسم علی پٹیل اور میر نورالدین سلطنت خداداد کا استحصال کرنے کا عزم کر بیٹھے تھے۔

Published: undefined

چوتھی اینگلو میسور جنگ 1799ء کے دوران سلطنت خداداد پر ایسٹ انڈیا کمپنی، مرہٹوں اور نظام حیدرآباد کی 50؍ ہزار مشترکہ مسلح افواج نے یلغار کی جو ٹیپو کی آخری جنگ ثابت ہوئی۔ سلطان کے غدار افسران نے آخری وقت تک انگریزوں کی سرگرمیوں سے ٹیپو کو اندھیرے میں رکھا۔ سلطان کو برٹش افواج کی نقل وحرکت کی اطلاع اس وقت ملی، جب وہ سرنگا پٹم پر اپنا شکنجہ کس چکی تھی۔ تقربیاً پانچ ہزار سپاہی جن میں تین ہزار یورویپن سپاہی شامل تھے یلغار کے لیے متعین کیے گئے۔ 4؍مئی کا سورج طلوع ہونے سے قبل ہی ان سپاہیوں کو خندق میں اتار دیا گیا تھا تاکہ کسی کو شک و شبہ نہ ہو، حملے کے عین وقت میرصادق اور پنڈت پرنیا نے شگاف اور جنوبی فصیل کی متعینہ فوج کو تنخواہ کے بہانے سے مسجد اعلیٰ کے پاس بلاکر انگریزی فوج کو قلعہ پر چڑھ آنے کی سہولت دی۔ اس قدم کا احتجاج کرنے والا کوئی نہیں تھا کیونکہ سید غفار جو سلطان کا انتہائی وفادار تھا بدقسمتی سے اس کی جان توپ کے گو لے کی نذر ہوگئی۔ اس کے شہید ہوتے ہی غداروں نے قلعہ سے سفید رومال ہوا میں ہلا کر انگریزی فوج کو یلغار کا اشارہ کیا جو پہلے سے ہی خندق میں موجو د تھی، اشارہ پاتے ہی فرنگیوں نے حملہ کر دیا۔

Published: undefined

ٹیپو نے انگریزوں کے خلاف بھرپور مزاحمت کی اور قلعے کو بند کروا دیا لیکن غدار ساتھیوں نے دشمن کے لیے قلعے کا دہلی دروازہ کھول دیا اور قلعے میں زبردست جنگ چھڑ گئی۔ اس حملہ کے دوران ٹیپو ایک ادنی سپاہی کی طرح پیدل ہی انگریزی فوج سے لوہا لیتے رہے اگر چہ ٹیپو کے پاس جنگ سے نکلنے کا راستہ تھا لیکن انہوں نے میدان جنگ سے فراری پر شہادت کو فوقیت دی۔ بارود کے ذخیرے میں آگ لگ جانے کے باعث مزاحمت کمزور ہو گئی اس موقع پر فرانسیسی افسر نے ٹیپو کو چترادرگا بھاگ جانے اور اپنی جان بچانے کا مشورہ دیا، مگر ٹیپو سلطان راضی نہ ہوئے اور ٹیپو اپنے مشہور مقولے ’’شیر کی ایک دن کی موت سوسالہ گیدڑ کی زندگی سے بہتر ہے‘‘ پر کھرے اترے اور 4 مئی، 1799ء کو میدان جنگ میں دلیری اورشجاعت سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined