سماجی

ایک بار پھر لوجہاد کے جن کو بوتل سے باہر نکالنے کی کوشش... سہیل انجم

سی آئی ڈی رپورٹ کی بنیاد پر عدالت نے لو جہاد کے معاملے کو بند کر دیا تھا۔ مگر ایک بار پھر اس جن کو بوتل سے باہر نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ تو بار بار نام نہاد لو جہاد کا شوشہ چھوڑتے رہتے ہیں اور خاص طور پر ہندووں کے ایک طبقے کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ ان کی لڑکیوں کی عزت محفوظ نہیں ہے۔ مسلم نوجوان ایک سازش کے تحت ان کو اپنے جال میں پھانس رہے ہیں اور ان کا مذہب تبدیل کروا کر ان سے شادی کر رہے ہیں۔ ان کے علاوہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے دیگر لیڈروں کی جانب سے بھی موقع بہ موقع یہ شوشہ چھوڑا جاتا رہا ہے۔ یہاں تک دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس کام کے لیے مسلم نوجوانوں کو خلیجی ملکوں سے پیسے ملتے ہیں اور ایک ایک شادی کے لیے دس دس لاکھ روپے دیئے جاتے ہیں۔ لیکن اس دعوے کا کوئی ثبوت آج تک پیش نہیں کیا جا سکا۔

Published: undefined

ابھی کچھ دنوں قبل آسام کے وزیر داخلہ ہیمنت وشوا شرما نے ایک بیان میں کہا کہ اگر 2021 کے اسمبلی انتخابات کے بعد ایک بار پھر بی جے پی کی حکومت بنتی ہے تو ریاستی حکومت لو جہاد کے خلاف سخت لڑائی چھیڑے گی۔ اس حوالے سے انھوں نے مولانا بدر الدین اجمل کی پارٹی اے آئی یو ڈی ایف کے خلاف بھی اظہار خیال کیا اور اس پر ثقافتی جہاد کا الزام لگایا اور کہا کہ بہت سی ہندو لڑکیاں اس ثقافتی کلچر کی زد پر آرہی ہیں۔ ان کے بیان سے اندازہ ہوا کہ بی جے پی کو اگلے اسمبلی انتخابات میں کامیابی کا یقین نہیں ہے۔ کیونکہ اگر یقین ہوتا تو حکومت کے ایک اہم ذمہ دار کی جانب سے جذباتی ایشو کو نہیں اچھالا جاتا۔ دوسرے بی جے پی بدر الدین اجمل کی پارٹی کی کامیابیوں سے بھی خائف محسوس ہوتی ہے۔ اسی لیے انھوں نے ان کی پارٹی کے سلسلے میں بھی بہت سی باتیں کہیں۔

Published: undefined

اسی دوران قومی کمیشن برائے خواتین کی چیئرپرسن ریکھا شرما نے مہاراشٹرا کے گورنر بھگت سنگھ کوشیاری سے ملاقات کی اور ان سے ریاست میں نام نہاد لو جہاد کے بڑھتے واقعات پر اظہار تشویش کیا اور خواتین کے تحفظ پر زور دیا۔ کمیشن نے ایک ٹوئٹ کر کے بتایا کہ کمیشن کی چیئرپرسن ریکھا شرما نے منگل کے روز مہاراشٹر کے گورنر بھگت سنگھ کوشیاری سے ملاقات کے دوران ریاست میں لو جہاد کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تبادلہ خیال کیا۔ ٹوئٹ میں کہا گیا کہ ریکھا شرما نے اپنی مرضی سے بین مذاہب شادیوں اور لو جہاد کے درمیان فرق کو واضح کیا اور کہا کہ ثانی الذکر پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

Published: undefined

قومی خواتین کمیشن کی چیئرپرسن نے لو جہاد کے مبینہ بڑھتے واقعات کی تائید میں کوئی اعداد و شمار یا ثبوت نہیں پیش کیے۔ انہوں نے اپنے بیان کی کوئی وضاحت بھی پیش نہیں کی۔ جس کے بعد سوشل میڈیا پر ان کی شدید نکتہ چینی اور مخالفت کی جا رہی ہے اور انہیں برطرف کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے ٹوئٹر اکاونٹ کو لاک کردیا۔ خیال رہے کہ کمیشن نے یہ تنازع ایسے وقت اٹھایا ہے جب بین مذاہب شادی کے موضوع پر زیورات کی ایک کمپنی کے اشتہار کی بعض حلقوں نے سخت مخالفت کی تھی جس کے بعد ملک کے معروف صنعتی گھرانے ٹاٹا کی ملکیت والی کمپنی تنشق کو اشتہار واپس لینا پڑا۔

Published: undefined

حالانکہ حکومت پارلیمنٹ میں واضح طور پر کہہ چکی ہے کہ موجودہ قوانین میں لو جہاد جیسی کوئی اصطلاح موجود نہیں ہے۔ نائب وزیر داخلہ جی کشن ریڈی نے فروری میں پارلیمنٹ میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ آئین کی دفعہ 25 کے تحت ہر شخص کو اپنی پسند کے مذہب اور ضمیر پر عمل کرنے اور اس کی تشہیر کی اجازت ہے اور لو جہاد کی اصطلاح موجودہ کسی بھی قانون میں مذکور نہیں ہے اور کسی مرکزی ایجنسی نے اب تک لوجہاد کا کوئی کیس درج نہیں کیا ہے۔ اس کے باوجود بار بار لو جہاد کا راگ الاپ کر آگ لگانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

Published: undefined

وشو ہندو پریشد کا دعوی ہے کہ ہندوستان میں ہر سال تقریباً بیس ہزار ہندو لڑکیاں اس مبینہ سازش کا شکار ہوجاتی ہیں۔ تاہم اس کی جانب سے بھی اس کے حق میں کوئی ثبوت نہیں پیش کیا جاتا۔ ماہرین بھی اس دعوے کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اترپردیش میں صورت حال اس کے یکسر برخلاف ہے۔ ہندو لڑکی اور مسلم لڑکے کے درمیان شادی کے صرف نو کیسز سامنے آئے ہیں اور وہ بھی ریاست کے 75 میں سے صرف پانچ اضلاع تک محدود ہیں۔ ان نو میں سے پانچ کیسز میں ہندو لڑکی نے عدالت میں لو جہاد کی بنیاد پر شادی کے الزامات کی سختی سے تردید کی تھی۔ بقیہ کیسز میں بھی وکلا، پولیس اور والدین کے دباو کی وجہ سے لڑکی اپنے گھر واپس لوٹنے پر مجبور ہوگئی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بالعموم ناراض والدین بین مذاہب شادی کو تذلیل آمیز سمجھتے ہیں اس لیے وہ اسے یکسر مسترد کردیتے ہیں۔ اور اس کے لیے یہ کہانی گڑھتے ہیں کہ مسلم لڑکے نے ان کی معصوم بیٹی کو گمراہ کرکے محبت کے دام میں پھنسا لیا تھا۔

Published: undefined

یہاں کیرالہ کی ایک 24 سالہ طالبہ اکھیلا کے واقعہ کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس نے اسلام کا مطالعہ کرنے کے بعد اپنا نام ہادیہ رکھا اور ایک مسلم نوجوان شافعین جہاں سے شادی کی تو ا س کے بعد لو جہاد کے پروپیگنڈے کی دھار تیز کر دی گئی تھی۔ کیرالہ ہائی کورٹ نے اس شادی کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ لیکن سپریم کورٹ نے اسے جائز بتایا اور اب ہادیہ اپنے شوہر کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے۔

Published: undefined

چونکہ اس قسم کے واقعات کیرالہ میں زیادہ ہوئے تھے اس لیے سپریم کورٹ کے حکم پر این آئی اے نے 89 بین مذاہب شادیوں کی ایک فہرست بنائی اور ان میں سے گیارہ کی تحقیقات کی تو اسے لو جہاد کا کوئی ثبوت ہی نہیں ملا۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کے نزدیک اب یہ معاملہ ختم ہو چکا ہے اور وہ اس بارے میں عدالت میں مزید کوئی رپورٹ داخل نہیں کرے گی۔

Published: undefined

این آئی اے کے اہلکار کے مطابق کیرالہ میں تبدیلی مذہب جرم نہیں ہے اور جن مردوں یا عورتوں نے تبدیلی مذہب کی وہ آئین کے دائرے میں کی۔ ان گیارہ میں سے کم از کم چار شادیوں میں ہندو مردوں نے اسلام قبول کیا۔ باقی معاملات میں ہندو عورتوں نے مسلمانوں سے شادی کی لیکن انھوں نے مذہب نہیں بدلا۔

Published: undefined

نام نہاد لو جہاد کے معاملات کی تحقیقات کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا۔ اس سے قبل 2009 میں کرناٹک ہائی کورٹ نے ریاستی پولیس سی آئی ڈی سے کہا تھا کہ وہ بنگلور کی ایک 18 سالہ لڑکی ٹی سلواراج کی کنور، کیرالہ کے 24 سالہ اصغر نظر سے شادی کی تحقیقات کرے اور یہ جاننے کی کوشش کرے کہ کیا یہ لو جہاد کا معاملہ ہے۔ 13 نومبر 2009 کو سی آئی ڈی نے عدالت میں اپنی رپورٹ داخل کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسے اس شادی میں لو جہاد کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر عدالت نے لڑکی کو اپنے شوہر کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی تھی۔

Published: undefined

اس معاملے کے نمٹ جانے کے بعد کرناٹک پولیس نے سیکڑوں بین مذاہب شادیوں کی جانچ کی اور اپنی رپورٹ میں کہا کہ ان تمام شادیوں میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ ہندو یا عیسائی لڑکیوں کی مسلمانوں سے جبراً شادی کرائی گئی اور ان کا مذہب تبدیل کرایا گیا۔ کرناٹک سی آئی ڈی کی جانچ سے معلوم ہوا تھا کہ 2005 سے 2009 کے درمیان جو 149 ہندو لڑکیاں غائب ہوئی تھیں انھوں نے مسلمانوں سے اور دس نے عیسائی لڑکوں سے شادی کی۔ جبکہ 38 مسلم اور 20 عیسائی لڑکیوں نے ہندووں سے شادی کی۔ ایسی 229 شادیوں میں سے صرف 63 میں مذہب بدلا گیا۔ سی آئی ڈی نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ بہت سی غائب لڑکیوں کے بارے میں کچھ معلومات ہی نہیں ہو سکیں۔ اس نے زور دے کر کہا کہ لو جہاد سے کہیں سنگین معاملہ انسانی اسمگلنگ کا ہے اس پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر عدالت نے لو جہاد کے اس معاملے کو بند کر دیا تھا۔ مگر ایک بار پھر اس جن کو بوتل سے باہر نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined