سائنس

آن لائن جرائم پر بین الاقوامی کنونشن منظور

کنونشن اطلاعاتی و مواصلاتی ٹیکنالوجی کے غلط استعمال، بچوں کے جنسی استحصال، آن لائن فراڈ اور منی لانڈرنگ جیسے سائبر جرائم سے نمٹنے کی کوششوں میں ایک اہم قدم ہے

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر / اے آئی</p></div>

علامتی تصویر / اے آئی

 

آن لائن جرائم کی روک تھام اور دنیا بھر کے لوگوں کو ڈیجیٹل خطرات سے تحفظ دینے کے لیے بین الاقوامی تعاون کو مضبوط بنانے کی کوششوں کے تحت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے سائبر جرائم کے خلاف کنونشن منظور کر لیا ہے ۔ یہ کنونشن رکن ممالک کی پانچ سالہ کوششوں کے بعد طے پایا گیا۔ اس کے اصول و ضوابط طے کرنے میں سول سوسائٹی، اطلاعاتی تحفظ کے ماہرین اور تعلیمی و نجی شعبے سے آرا بھی لی گئیں ۔ یہ فوجداری انصاف کا پہلا عالمی معاہدہ ہے جس پر تقریباً 20 سال سے بات چیت جاری تھی۔ آئندہ سال ویتنام کے دارالحکومت ہنوئی میں اس پر دستخط کیے جائیں گے۔ 40 ممالک کی جانب سے توثیق ملنے کے تین ماہ بعد یہ باقاعدہ طور سے نافذالعمل ہو جائے گا۔ اس کنونشن پر دستخط کرنے والے ممالک اس پر عملدرآمد کے پابند ہوں گے۔

اقوام متحدہ جنرل اسمبلی نے 24 دسمبر کو اس کنونشن سے متعلق قرارداد کو بغیر رائے شماری کے منظور دے دی۔ یہ کنونشن اطلاعاتی و مواصلاتی ٹیکنالوجی کے غلط استعمال سے جنم لینے والے نمایاں خطرات کو تسلیم کرتا ہے جسے جرائم پیشہ عناصر غیرمعمولی حجم، رفتار اور وسعت کی حامل مجرمانہ سرگرمیوں کے لیے کام میں لا سکتے ہیں۔ اس میں ریاستوں، کاروباروں اور معاشرے پر ایسے جرائم کے انتہائی منفی اثرات کو بھی واضح کیا گیا ہے۔ کنونشن میں دہشت گردی، انسانوں اور منشیات کی اسمگلنگ اور آن لائن مالیاتی جرائم سے لاحق خطرات اور ان سے تحفظ کی اہمیت تسلیم کی گئی ہے۔ کنونشن کے مطابق سائبر جرائم کے مقابل غیرمحفوظ لوگوں کے لیے انصاف کو ترجیح دینا بہت ضروری ہے، لہٰذا آن لائن جرائم کے خلاف تحفظ کو مضبوط بنانے کے لیے تکنیکی معاونت، صلاحیتوں میں اضافے اور ممالک کے مابین تعاون کو بڑھانا ہوگا۔

Published: undefined

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کے مطابق یہ معاہدہ سائبر جرائم کی روک تھام اور ان کا مقابلہ کرنے کی غرض سے بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینے کے لیے ممالک کے اجتماعی عزم کا عکاس ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ معاہدہ آن لائن سرگرمیوں کو محفوظ بنائے گا۔ انہوں نے تمام ممالک پر زور دیا کہ وہ اس معاہدہ میں شمولیت اختیار کریں اور اس پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔ بعد ازاں ان کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ اس معاہدے سے رکن ممالک کو جرائم سے متعلق معلومات اور ثبوتوں کے تبادلے، متاثرین کی حفاظت اور جرائم کی روک تھام اور آن لائن دنیا میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے باہمی تعاون کا غیرمعمولی پلیٹ فارم میسر آئے گا۔

جدید اطلاعاتی اور مواصلاتی ٹیکنالوجی کا انسانی ترقی میں نہایت اہم کردار ہے لیکن اس کے ذریعے سائبر جرائم کے خطرات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے صدر فائلیمن یانگ نے نئے کنونشن کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ اس کے ذریعے رکن ممالک کو ان جرائم کی روک تھام کے ساتھ عوام کے حقوق کے آن لائن تحفظ کی غرض سے بین الاقوامی تعاون کے ذرائع میسر آئیں گے۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسداد منشیات و جرائم (یو این او ڈی سی) کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر غادہ ولی کے مطابق یہ کنونشن بچوں کے جنسی استحصال، جدید طریقوں سے کیے جانے والے آن لائن فراڈ اور منی لانڈرنگ جیسے سائبر جرائم سے نمٹنے کی کوششوں میں ایک اہم قدم ہے۔ اس ضمن میں ان کا ادارہ تمام ممالک کو اس کنونشن پر عملدرآمد میں مدد دینے اور انہیں اپنی معیشتوں اور ڈیجیٹل سرگرمیوں کو سائبر جرائم سے تحفظ کے لیے درکار تمام ذرائع مہیا کرنے کا عزم رکھتا ہے۔

Published: undefined

قبل ازیں، سعودی عرب نے دسمبر کے وسط میں ریاض میں 19ویں انٹرنیٹ گورننس فورم کی میزبانی کی۔ اس موقع پر، مصنوعی ذہانت کی ماہر محترمہ ایوانا بارٹولیٹی نے رائے دی کہ کمپنیوں اور حکومتوں کو مصنوعی ذہانت کے آلات و مصنوعات کے ممکنہ غلط استعمال سے افراد کو محفوظ رکھنے کے لیے مزید ذمہ داری لینے کی ضرورت ہے۔ وہ ملٹی نیشنل آئی ٹی کمپنی وپرو کی گلوبل چیف پرائیویسی اور اے آئی گورننس آفیسر، اور کونسل آف یورپ کی مشیر اور ویمن لیڈنگ ان اے آئی نیٹ ورک کی شریک بانی ہیں۔

ایک انٹرویو میں، انہوں نے خواتین اور عالمی جنوب کی جانب سے اے آئی صنعت میں نمائندگی کی کمی پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ یورپ میں اس صنعت میں کام کرنے والوں میں سے صرف 28 فیصد خواتین ہیں۔ ہر اے آئی پروڈکٹ ایسے عناصر پر مبنی ہوتا ہے جنہیں لوگ منتخب کرتے ہیں۔ لہذا، کافی خواتین اور تنوع کا نہ ہونا مسئلہ کا باعث ہے۔ لیکن یہ صرف زیادہ خواتین کوڈرز اور پروگرامرز رکھنے کا معاملہ نہیں ہے، یہ ان لوگوں کے بارے میں بھی ہے جو مصنوعی ذہانت کے مستقبل کا فیصلہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے خواتین اور لڑکیوں کو مشورہ دیا کہ اے آئی اور ٹیکنالوجی میں جانے کے بہت سے طریقے ہیں، اور ضروری نہیں کہ وہ کوڈر ہی بنیں۔

Published: undefined

بارٹولیٹی نے دعوی کیا کہ جس طرح سے ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا ہے وہ غیر جانبدار نہیں ہے کیونکہ کوئی فیصلہ کرتا ہے کہ کون سا ڈیٹا شامل کرنا ہے۔ لہذا، اے آئی کی طرف سے کی گئی پیشین گوئیاں غیر جانبدار نہیں ہیں۔ ہمیں اے آئی کی گورننس، آڈیٹنگ، تحقیقاتی صحافت کے لیے خواتین کے علاوہ مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد کی ضرورت ہے، تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ کیا غلط ہو رہا ہے۔

اے آئی سسٹم کی منصفانہ اور شفاف طریقے سے تعیناتی کو یقینی بنانے کے لیے مختلف حکومتوں، نجی شعبے، بڑی ٹیک کمپنیوں، کارپوریٹس اور سول سوسائٹی کے درمیان تعاون جاری ہے ۔ لیکن مزید اقدام کی ضرورت ہے، کیونکہ مستقبل میں درستگی اور شفافیت ایک قانونی ضرورت بن سکتی ہے۔ ہر ملک کو اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ اے آئی معاشرے میں موجودہ عدم مساوات کو بڑھاوا نہ دے، یا انٹرنیٹ کو مزید غیر محفوظ نہ بنا دے، جہاں جعلی ویڈیوز، تصاویر اور غلط معلومات پھیلانا بہت آسان ہے۔ اس تناظر میں، اسکولوں میں تعلیم اور اے آئی خواندگی ایک تنقیدی ذہنیت کو تیار کرنے کے لیے اہم ہیں۔ لیکن لوگوں کو یہ بتانا کہ وہ اپنی آن لائن حفاظت کے لیے خود ذمہ دار ہیں سراسر ناانصافی ہے۔ بارٹولیٹی نے تسلیم کیا کہ اے آئی خواندگی بہت اہم ہے، لیکن ذمہ داری مصنوعات بنانے والی بڑی ٹیک کمپنیوں اور ان مصنوعات کے استعمال کو ریگولیٹ کرنے والی حکومتوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined