’ووٹ چوری‘ کے خلاف عوامی بیداری اور زمینی پیش قدمی

سہسرام سے شروع ہونے والی ’ووٹر ادھیکار یاترا‘ نے ووٹروں کے حقوق پر عوامی بیداری پیدا کی۔ راہل اور تیجسوی نے باہمی احترام کے ساتھ انتخابی فہرست کی خامیوں اور ووٹ چوری کے خلاف موثر مہم چلائی

<div class="paragraphs"><p>ووٹر ادھیکار یاترا کا منظر / تصویر آئی این سی</p></div>
i
user

عبدالقادر

از: عبدالقادرسہسرام سے 17 اگست کو ’ووٹر ادھیکار یاترا‘ کا آغاز ہوا۔ اس سے چار دن قبل تیجسوی یادو نے انتخابی فہرست میں ایسی خامی کا پردہ فاش کیا جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ یاترا کیوں ضروری تھی۔ تیجسوی نے بتایا کہ گجرات کے ایک سینئر بی جے پی عہدیدار بھیکو بھائی دلسانیا کا نام بہار کی ووٹر لسٹ میں درج ہے۔ ان کا نام گجراتی زبان میں چھپا تھا اور اس میں نہ مکان نمبر تھا نہ مکمل پتہ۔ اصل نکتہ یہ ہے کہ بھیکو بھائی کا نام گجرات کی فہرست میں بھی موجود ہے اور انہوں نے گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے حلقے میں ووٹ بھی ڈالا تھا۔

بہار میں اسی سال اسمبلی انتخابات ہونے ہیں اور انتخاب سے کچھ پہلے ہی دلسانیا کو ریاست میں ایک تنظیمی عہدہ دیا گیا اور انہیں یہاں ووٹر کے طور پر رجسٹر کر لیا گیا۔ تیجسوی نے طنز کیا کہ اگلے سال وہ آسام میں بھی ووٹر بن سکتے ہیں۔ کون جانتا ہے پچھلے پانچ برسوں میں کہاں کہاں ان کا نام درج رہا ہے؟ اس انکشاف سے بی جے پی حلقے میں کھلبلی مچ گئی اور حامی فوراً دفاع میں اتر آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک ہندوستانی شہری کہیں بھی رہائش اختیار کر سکتا ہے اور ووٹر لسٹ میں نام درج کرا سکتا ہے۔ جہاں تک مکان نمبر غائب ہونے یا ’ایک فرد، ایک ووٹ‘ کے اصول کی خلاف ورزی جیسی ’چھوٹی باتوں‘ کا تعلق ہے تو ان پر وہی لوگ شور مچاتے ہیں جن کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہوتا۔

یہ یاترا ریاست کے 23 اضلاع میں 16 دن تک جاری رہے گی اور تقریباً 1300 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرے گی۔ عوام ازخود اس مہم کا حصہ بن رہے ہیں۔ گرمی اور بارش کی پرواہ کیے بغیر لوگ تنگ، کیچڑ بھری راہوں پر چلتے اور دوڑتے جا رہے ہیں۔ کانگریس، آر جے ڈی اور سی پی آئی (ایم ایل) لبریشن کے جھنڈے لہراتی بھیڑ ’ووٹ چور، گدی چھوڑ‘ کے فلک شگاف نعرے لگا رہی ہے۔ یہ نعرہ سی پی آئی (ایم ایل) کے جنرل سکریٹری دیپانکر بھٹّاچاریہ نے تخلیق کیا۔ تنظیمی ٹیم کے ایک رکن نے مصنف سے طنزیہ کہا: ’’جیسا آپ دیکھ سکتے ہیں، ان لوگوں کو بسوں سے نہیں لایا گیا ہے!‘‘

بہار میں بُوائی کا موسم ختم ہو چکا ہے اور بیشتر علاقے سیلاب زدہ ہیں، اس لیے کسان اور کھیت مزدور جلسے سننے کے لیے وقت بھی رکھتے ہیں اور وجہ بھی۔ گیا میں سنجے کمار نے میڈیا سے کہا، ’’یہ راہل گاندھی کی لڑائی نہیں، ہماری جنگ ہے۔‘‘

الیکشن کمیشن نے جلدبازی اور ناقص طریقے سے ووٹر لسٹ کی خصوصی گہری نظر ثانی (ایس آئی آر) کی اور الزام ہے کہ اس میں بڑی تعداد میں دلتوں اور اقلیتوں کے نام کاٹ دیے گئے۔ نتیجتاً خوف و ہراس کا ماحول ہے۔ سنجے نے کہا، ’’نام کٹ گیا تو کوئی کتا بھی نہیں پوچھے گا۔ آج ووٹ کا حق چھن جائے گا؛ کل راشن، علاج، روزگار اور فلاحی اسکیموں کا حق بھی چھن جائے گا۔‘‘


یاترا کا وقت اور راستہ سوچ سمجھ کر طے کیا گیا۔ یہ زیادہ تر دیہی علاقوں اور بستیوں سے گزر رہی ہے۔ سہسرام کو نقطہ آغاز کے طور پر چننا علامتی بھی تھا اور عملی بھی۔ سہسرام سابق مرکزی وزیر، سابق نائب وزیراعظم اور دلت رہنما جگجیون رام کا علاقہ رہا ہے۔ یہاں شیرشاہ سوری کا مقبرہ بھی ہے جو ان کی تعمیر کردہ عظیم شاہراہ (گرینڈ ٹرنک روڈ) سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

یوٹیوبر بھارت سورج اس یاترا میں امنڈتی بھیڑ کو بڑا اشارہ مانتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا کہ یہ یاترا انتخابات میں بڑا فرق ڈالے گی یا نہیں لیکن اس میں شک نہیں کہ اس نے ’ووٹ چوری‘ کو ایک مؤثر اور عوامی نعرہ بنا دیا ہے۔

بی جے پی قائدین اور مرکزی میڈیا نے اس یاترا کو مذاق اور سرکس قرار دیا۔ باضابطہ طور پر تو وہ کہتے ہیں کہ جب کوئی بندر بھی گاؤں سے گزرتا ہے تو بھیڑ جمع ہو جاتی ہے لیکن پس پردہ وہ مانتے ہیں کہ سیاسی وجوہات سے اس کے اثر کو کم کر کے دکھایا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ ایک بی جے پی رہنما نے نام نہ شائع کرنے کی شرط پر اعتراف کیا کہ ’’راہل اور تیجسوی پر ہم نے جو ’بوڑم‘ اور ’شاہی پپو‘ جیسے لیبل چسپاں کیے، اس کے برخلاف عوام انہیں صاف گو اور جدوجہد کرنے والے لیڈروں کے طور پر دیکھتی ہے جو روزگار اور زندگی جیسے بنیادی مسائل پر بات کرتے ہیں۔‘‘ ان کے مطابق مقبولیت کے اشاریے پر وہ نریندر مودی کو سخت ٹکر دے رہے ہیں۔

سماجی کارکن برج نندن پاٹھک اس بات سے متاثر ہیں کہ این ڈی اے حامیوں کے چھوٹے موٹے احتجاج اور کالے جھنڈوں کے باوجود یاترا بآسانی آگے بڑھ رہی ہے۔ راہل جس طرح شرپسندوں کا مسکرا کر، فلائنگ کس اور تھمز اپ سے جواب دے رہے ہیں، وہ دیکھنے لائق ہے۔

ریٹائرڈ آئی پی ایس ایم اے کاظمی کے مطابق اس یاترا کا مذاق اڑانا بی جے پی کی غلطی رہی۔ بہتر تھا کہ وہ اسے نظر انداز کر دیتے جیسا کہ اکثر کیا کرتے ہیں۔ اس کے برعکس بی جے پی نے اپنے اسٹار ترجمان سمبت پاترا، اجے آلوک اور سید شاہ نواز حسین کو راہل پر حملہ کرنے اور مقبول عوامی تحریک بن رہی اس مہم کو ’کمتر‘ ثابت کرنے پر لگا دیا۔ اجے آلوک اور شاہ نواز حسین کو کہا گیا ہے کہ وہ ضلعی ہیڈکوارٹرز کا دورہ کریں اور ’ووٹ چور، گدی چھوڑ‘ مہم کا توڑ کریں۔ خلاصہ یہ ہے کہ ایس آئی آر کا دفاع کرنا اتنا ہی مشکل ثابت ہو رہا ہے جتنا یہ تاثر بدلنا کہ الیکشن کمیشن اور بی جے پی مل کر کام کر رہے ہیں۔ بہار کے نائب وزیراعلیٰ وجے سنہا کا ایک بیان اس تاثر کو مزید مضبوط کر گیا۔ ان کا نام ووٹر لسٹ میں دو حلقوں میں ہے اور انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ان کے دو میں سے ایک نام کو ہٹانے سے انکار کر دیا ہے۔


ایک اور پہلو جو عوام کے دل کو چھو رہا ہے وہ یہ ہے کہ راہل اور تیجسوی ایک دوسرے کے لیے باہمی احترام کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ دونوں میں سے کوئی اپنی شبیہ بہتر دکھانے کی کوشش نہیں کرتا۔ تیجسوی اور دیپانکر بھٹّاچاریہ یاترا میں راہل کے شانہ بشانہ چل رہے ہیں۔ یہ محض علامتی نہیں ہے بلکہ عوام اس کو محسوس کر رہے ہیں۔ راہل عوام کو آئین، ایس آئی آر اور ان کے ووٹ کی اہمیت سمجھاتے ہیں جبکہ تیجسوی گزشتہ دو دہائی کے این ڈی اے کے بہار سے کیے گئے وعدوں کی دھوکہ دہی کو اجاگر کرتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کی بات کو تقویت دیتے ہیں۔

راہل رات میں اپنے کنٹینر میں ہی قیام کرتے ہیں، کسی ہوٹل یا علاقائی لیڈر کے گھر نہیں۔ ان کا یہ فیصلہ نچلی سطح کے کارکنوں کو بھی پسند آ رہا ہے۔ وہ اپنی گاڑی میں کسی بھی دیہاتی کو ساتھ بٹھا لیتے ہیں، کسی کو بھی مائیک پکڑا کر اپنا تجربہ بیان کرنے کا موقع دیتے ہیں اور ڈیوٹی پر زخمی پولیس اہلکار کی مدد کے لیے فوراً دوڑ پڑتے ہیں۔ یہ سب غیر رسمی رویے انہیں عوام کا دوست بنا رہے ہیں۔

مرحوم دشرتھ مانجھی کے خاندان کے ساتھ جس طرح راہل نے اپنائیت دکھائی، وہ بھی دلوں کو چھو گیا۔ دشرتھ مانجھی کو ’ماؤنٹین مین آف بہار‘ کہا جاتا ہے۔ انہوں نے اکیلے ہی ایک پہاڑ کاٹ کر سڑک بنائی تھی۔ ان کی زندگی پر کیتن مہتا نے فلم بھی بنائی تھی جس میں نوازالدین صدیقی نے اہم کردار ادا کیا۔ جب مانجھی کا انتقال ہوا تو ان کے پاس ذاتی مکان نہیں تھا، حالانکہ کئی لیڈروں نے گھر دینے کا وعدہ کیا تھا۔ 18 اگست کو راہل گاندھی نے بغیر کسی تشہیر کے مانجھی کے خاندان کو نیا مکان اور اس کی چابیاں حوالے کیں۔

یوں ابھی سفر باقی ہے اور وعدے نبھانے ہیں۔ توانائی اور امید سے لبریز یہ یاترا جاری ہے اور یکم ستمبر کو پٹنہ کے گاندھی میدان میں اس کا اختتام ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔