ٹرمپ کی ہند مخالف پالیسی، روس پر دباؤ کا حربہ
ڈونلڈ ٹرمپ روس پر دباؤ ڈالنے کے لیے ہندوستان کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ سستے روسی تیل کی خریداری پر 25 فیصد اضافی ٹیکس سے ہند-امریکہ تعلقات اور کوآڈ اتحاد کے مستقبل پر سوال اٹھ گئے ہیں

ایسا لگتا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہندوستان کے حوالے سے غیر معمولی تلخی اختیار کر لی ہے اور ان کا رویہ ان تمام ملکوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ سخت نظر آ رہا ہے جو فی الحال ان کے ریڈار پر ہیں۔ امریکہ نے ہندوستان کی برآمدات پر سب سے زیادہ یعنی پچاس فیصد ٹیکس عائد کیا ہے، جس میں روس سے خام تیل کی درآمدات پر 25 فیصد کا اضافی اور جرمانہ نما ٹیکس بھی شامل ہے۔
امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے 19 اگست کو ایک انٹرویو میں کہا کہ یوکرین جنگ سے قبل ہندوستان کی تیل کی کل کھپت میں روسی خام تیل کا حصہ محض ایک فیصد تھا، جو جنگ کے بعد بڑھ کر بیالیس فیصد تک جا پہنچا۔ اس کے مقابلے میں چین کا حصہ جنگ سے پہلے 13 فیصد اور جنگ کے بعد 16 فیصد تک محدود رہا۔
بیسنٹ کے بقول ہندوستان اس تیل کو سستے داموں خرید کر ریفائن کرتا ہے اور پھر مختلف مصنوعات کی شکل میں دوبارہ فروخت کرتا ہے، جو ناقابلِ قبول ہے۔ یہ بھی کسی سے چھپا نہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے قریبی صنعت کاروں مکیش امبانی اور گوتم اڈانی نے اس صورتحال سے بڑے پیمانے پر منافع کمایا، ایک نے تیل کی ریفائننگ اور دوبارہ فروخت سے اور دوسرے نے بندرگاہی خدمات سے۔
اسی دن وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران ٹرمپ کی 27 سالہ ترجمان کیرولین لیوٹ نے کہا، ’’صدر نے اس جنگ کو ختم کرنے کے لیے زبردست دباؤ ڈالا ہے۔ آپ نے دیکھا کہ انہوں نے ہندوستان پر پابندیاں اور دیگر اقدامات کیے ہیں۔‘‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جہاں ٹرمپ روس پر امن معاہدہ کرنے کا دباؤ ڈال رہے ہیں، وہاں ہندوستان کو ہی کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے اور دونوں کو ایک ساتھ کیوں جوڑا جا رہا ہے؟
یہ سب اس وقت ہو رہا ہے جب مودی اور ٹرمپ کی قریبی دوستی کی مثالیں ماضی میں دی جاتی رہی ہیں۔ ستمبر 2019 میں ٹیکساس کے ہیوسٹن شہر میں ہونے والا ’ہاؤڈی مودی‘ پروگرام اور اس میں ’اب کی بار ٹرمپ سرکار‘ کا نعرہ یادگار سمجھا جاتا ہے۔ احمد آباد کے اسٹیڈیم میں ٹرمپ کا شاندار استقبال، جہاں لاکھوں لوگ موجود تھے، بھی سب کو یاد ہے۔ اس کے باوجود آج ٹرمپ کا رویہ بالکل مختلف دکھائی دیتا ہے۔ ممکن ہے کہ گزشتہ برس ستمبر میں، جب ٹرمپ اپنی دوبارہ کامیابی کے لیے کوشاں تھے، مودی کا ان سے ملاقات سے گریز ان کے دل میں چبھ گیا ہو اور وہ اب اسی کا بدلہ لے رہے ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ سے معاملہ کرنا بیشتر حکومتوں کے لیے ایک کٹھن امتحان ثابت ہوا ہے۔ انہوں نے امریکی خارجہ پالیسی کو سر کے بل کھڑا کر دیا ہے۔ روایتی اتحادیوں سے منہ موڑتے ہوئے وہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کے روایتی مخالفین یعنی روس اور چین سے تعلقات بڑھانے لگے ہیں۔ ان کے اقدامات نے جاپان اور جنوبی کوریا جیسے ممالک کو بھی مجبور کیا ہے کہ وہ اپنی جوہری پالیسیوں پر دوبارہ غور کریں۔ حالیہ دنوں میں امریکہ نے ہندوستان کو جس انداز میں نشانہ بنایا ہے اس سے کوآڈ اتحاد (امریکہ، جاپان، ہندوستان اور آسٹریلیا) کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے، جس کا مقصد چین کے بڑھتے اثر کو روکنا تھا۔
اسی دوران، خبر رساں ادارے رائٹرز نے اطلاع دی ہے کہ ہندوستانی سرکاری کمپنی انڈین آئل اور بھارت پیٹرولیم نے ستمبر اور اکتوبر کے لیے روسی تیل کی سپلائی کے آرڈر دوبارہ دے دیے ہیں۔ اگرچہ واشنگٹن کی دھمکیوں اور رعایت کم ہونے کی وجہ سے جولائی میں یہ خریداری کچھ عرصے کے لیے رکی تھی لیکن ہندوستانی ریفائنریوں کا کہنا ہے کہ اگر اقتصادی حالات اجازت دیں تو یہ عمل جاری رہے گا۔
مودی کو امید ہے کہ امریکہ اور روس کے درمیان یوکرین کے مسئلے پر کسی حد تک سمجھوتہ ہونے کے بعد امریکہ کا یہ دباؤ کم ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی وزارت خارجہ نے حالیہ دنوں الاسکا میں ٹرمپ اور پوتن کی ملاقات کی بھرپور حمایت کی، جبکہ دنیا کے زیادہ تر ممالک اس حوالے سے محتاط رہے۔
تاہم اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ اگر روس-یوکرین جنگ ختم بھی ہو جائے تو ٹرمپ ہندوستان پر عائد کردہ اضافی 25 فیصد ٹیکس واپس لے لیں گے۔ ہندوستان پر ان کی ناراضی کی ایک اور وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ مئی میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی میں ٹرمپ کے کردار کو مودی حکومت نے کھلے عام مسترد کر دیا تھا۔ مزید یہ کہ امریکہ کا رویہ اس بات پر بھی منحصر ہے کہ ہندوستان ٹرمپ کی تجارتی مراعات قبول کرتا ہے یا نہیں، جنہیں ہندوستان نے ماضی میں رد کر دیا تھا۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان پر عائد 25 فیصد اضافی ٹیکس ہندوستانی معیشت کے لیے بڑا دھچکا ثابت ہوگا کیونکہ امریکہ ہندوستان کی برآمدات کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ اس دباؤ کے تحت مودی نے بظاہر چین کی طرف جھکاؤ دکھایا ہے، جو خود ہندوستان کے لیے ایک پیچیدہ صورت حال ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 2020 سے چین کی پیپلز لبریشن آرمی مشرقی لداخ کے تقریباً 2 ہزار مربع میل ہندوستانی علاقے پر قابض ہے اور پسپائی کے کوئی آثار نہیں دکھا رہی۔
ہندوستان اور چین کے درمیان تجارتی خسارہ 100 ارب ڈالر سے زائد ہے اور بیجنگ اس کو کم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہا۔ ایسے میں مودی کا یہ کہنا کہ اکتوبر میں چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کے بعد ہندوستان اور چین کے تعلقات میں بہتری آئی ہے، کم از کم حیران کن ضرور ہے۔ کیا چین نے لداخ سے فوج ہٹانے پر رضامندی ظاہر کی؟ کیا اس نے پاکستان کو فوجی مدد بند کرنے کا وعدہ کیا؟ کیا اس نے ہندوستان کو زیادہ درآمدات دینے کی بات کی؟ ایسا کچھ سامنے نہیں آیا۔
دہلی میں مودی اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر سے چینی وزیر خارجہ وانگ یی کی ملاقات کے بعد دونوں ملکوں نے تجارتی تعلقات بڑھانے پر بات تو کی، مگر خاص اعلان صرف یہ تھا کہ چین ہندوستان کو نایاب ارضی معدنیات کی برآمد دوبارہ شروع کرے گا، جس سے ہندوستان کا تجارتی خسارہ اور بڑھنے کا خدشہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندوستان کے اپنے نایاب معدنی ذخائر دنیا کے ٹاپ پانچ میں شمار ہوتے ہیں لیکن اس کا فائدہ ہندوستان خود نہیں اٹھا سکا۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ ’میک ان انڈیا‘ کا کیا ہوا؟
یوکرین کے لیے کشمیر جیسا فارمولہ؟
یوکرین بحران کے حل کا دارومدار ٹرمپ، پوتن اور یورپی رہنماؤں کے درمیان معاہدے پر ہے، جو اب بھی تعطل کا شکار ہے۔ نیٹو کے فوجی سربراہان مستقبل میں روسی جارحیت روکنے کے لیے یوکرین کے لیے ایک سیکورٹی کور بنانے پر غور کر رہے ہیں۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی پر کریمیا حوالے کرنے کے لیے دباؤ ہے، جس پر روس نے 2014 میں قبضہ کیا تھا۔ مشرقی یوکرین کے علاقے بھی رفتہ رفتہ روس کے کنٹرول میں جا چکے ہیں اور کریملن ان پر بھی کریمیا جیسی رعایتیں چاہتا ہے۔
نتیجتاً ایک ایسا فارمولہ زیرِ بحث ہے جو پاکستان مقبوضہ کشمیر جیسا ہو سکتا ہے یعنی زمین پر قبضہ روس کے پاس لیکن یوکرین اسے متنازعہ مانتا رہے۔ امریکہ شامل ہو یا نہ ہو، پوتن زیلنسکی کے ساتھ براہِ راست بیٹھنے پر آسانی سے آمادہ نہیں ہوں گے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے مطابق اس طرح کی کسی ملاقات کے لیے طویل تیاری درکار ہے جو مختلف مراحل سے گزر کر ہی ممکن ہو سکے گی۔ اگر کبھی پوتن زیلنسکی کے ساتھ ایک کمرے میں بیٹھنے پر رضامند ہو جاتے ہیں تو یہ یقیناً ایک بڑا قدم ہوگا۔ روس کا ہدف یوکرین کو اپنے دائرہ اثر میں واپس لانا اور نئی سوویت طاقت بننا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔