جی ایس ٹی اصلاحات کی سمت میں محدود پیش رفت، بڑے چیلنجز باقی
جی ایس ٹی میں کثیر سلیب، ابہام اور وفاقی عدم توازن جیسے مسائل ہیں۔ دو شرحوں کے نظام، شرحوں کی معقولیت اور ریاستوں کو مالی خودمختاری دے کر ہی حقیقی اصلاحات ممکن ہیں

یکم جولائی 2017 کو پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس میں اشیا و خدمات ٹیکس (جی ایس ٹی) کو بڑی دھوم دھام سے نافذ کیا گیا۔ ’تمام ٹیکس کی جگہ ایک ٹیکس‘ کہہ کر اسے تاریخی قرار دیا گیا لیکن حقیقت میں یہ ایک پیچیدہ عمل ثابت ہوا۔ ریاستوں نے ریاستی سطح پر عائد سیلز ٹیکس، ویلیو ایڈیڈ ٹیکس (ویٹ) اور چوکی فیس جیسے مختلف محصولات لگانے کے اپنے اختیارات چھوڑ دیے۔ قانون میں ریاستوں کے لیے محصولات میں کمی کی تلافی کا بندوبست کیا گیا تھا، مگر یہ انتظام 2022 میں ختم ہو گیا۔
اس یومِ آزادی کے موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی نے ’دیوالی تحفے‘ کے طور پر اگلی نسل کی جی ایس ٹی اصلاحات کا اعلان کیا۔ ان کا مقصد خاص طور پر متوسط طبقے اور ایم ایس ایم ای (خُرد، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار) پر ٹیکس کا بوجھ کم کرنا ہے۔ جی ایس ٹی 2.0 تین ستونوں پر مبنی ہوگا: ڈھانچے میں اصلاح، شرحوں کو معقول بنانا اور کاروبار و روزمرہ زندگی میں سہولت فراہم کرنا۔
جی ایس ٹی، جو ایک متحدہ اور قومی سطح کا بالواسطہ ٹیکس ہے، ساخت اور نفاذ دونوں ہی اعتبار سے خامیوں کا شکار ہے۔ بنیادی خامی یہ ہے کہ بالواسطہ ٹیکس فطری طور پر رجعت پسندانہ ہوتا ہے کیونکہ اس کی ادائیگی کا انحصار کسی کی آمدنی پر نہیں بلکہ خریدی جانے والی اشیا کی قیمت پر ہوتا ہے۔ اس لیے غریبوں پر اس کا اثر امیروں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔ آمدنی اور جائیداد پر عائد کیے جانے والے براہِ راست ٹیکس نسبتاً زیادہ منصفانہ سمجھے جاتے ہیں کیونکہ اس میں ادائیگی کی شرح آمدنی کے ساتھ بڑھتی ہے، گھٹتی نہیں۔
اس کمی کو قابو کرنے کے لیے جی ایس ٹی میں متعدد شرحوں والے سلیب رکھے گئے۔ غریبوں کے استعمال کی اشیا پر صفر یا 5 فیصد اور امیروں کے لیے زیادہ شرح مقرر کی گئی لیکن اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ حکومت یہ طے کرتی ہے کہ غریب کیا استعمال کریں۔ ضروری اور غیرضروری اشیا میں فرق کوئی مستقل چیز نہیں ہے اور یہ مرکز کا اختیار بھی نہیں ہونا چاہیے۔ جی ڈی پی میں اضافے کے ساتھ غریب خاندان متوسط طبقے میں اور متوسط طبقہ امیروں میں شامل ہوتا ہے۔ ان کی آمدنی کو براہِ راست ہدف بنانے کے بجائے جی ایس ٹی کے ذریعے انہیں ’قابو‘ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
دنیا کے بیشتر ممالک میں خوراک اور دوائیں بالواسطہ ٹیکس سے مستثنیٰ ہوتی ہیں۔ ایک معقول نظام میں تمام اشیا و خدمات پر ایک ہی درمیانی شرح ہونی چاہیے۔ یورپی یونین، سنگاپور اور آسٹریلیا سمیت کئی ممالک میں یہی اصول لاگو ہے۔ وہاں چند مخصوص فرق ضرور ہوتے ہیں مگر عمومی طور پر ایک درمیانی شرح، خوراک و ادویات کے لیے بہت کم اور تمباکو، شراب اور پرتعیش اشیا کے لیے زیادہ شرح نافذ ہے۔
ہندوستان میں جی ایس ٹی نے شرحوں کے کئی درجے برقرار رکھے ہیں- 0، 5، 12، 18، 28 فیصد، اس کے علاوہ جرمانہ نما شرح اور مختلف سرچارج بھی عائد کئے جاتے ہیں۔ اس وجہ سے اشیا و خدمات کی درجہ بندی پر اکثر تنازعہ رہتا ہے، ٹیکس دہندگان میں ابہام پیدا ہوتا ہے اور مقدمات بڑھتے ہیں۔ جی ایس ٹی کے تحت ’معکوس محصول‘ (انورٹڈ ڈیوٹی) کا مسئلہ بھی ہے، جہاں کئی بار خام مال پر تیار مال سے زیادہ ٹیکس لگتا ہے۔ اس سے نقدی کے بہاؤ میں رکاوٹ اور گھریلو پیداوار کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔
مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کا ایک بڑا حصہ جی ایس ٹی کے دائرے سے باہر ہے، جیسے زراعت، پٹرولیم مصنوعات، بجلی، شراب اور رئیل اسٹیٹ۔ مخصوص چھوٹ سے ٹیکس کا دائرہ محدود ہوتا ہے، آمدنی گھٹتی ہے اور جی ایس ٹی اصلاحات کی اصل روح کمزور ہوتی ہے۔
وزیر اعظم نے 15 اگست کو جن تبدیلیوں کا ذکر کیا، ان میں سب سے اہم موجودہ کثیر سلیب نظام سے دو شرحوں کے نظام کی طرف بڑھنا ہے: ایک معیاری اور ایک خصوصی شرح، چند خاص اشیا کے لیے الگ شرح کے ساتھ۔ توقع ہے کہ اس سے تعمیل میں آسانی ہوگی، مقدمات اور درجہ بندی کے جھگڑے کم ہوں گے اور شرحوں میں استحکام آئے گا۔ اس سے یہ اندازہ لگانا آسان ہوگا کہ کون سی سرگرمی کس شرح میں آئے گی۔ روزمرہ استعمال کی اشیا اور عام سہولت کی مصنوعات پر ٹیکس میں کمی کی امید ہے، جس سے کھپت بڑھے گی اور ایم ایس ایم ای کو فائدہ ہوگا۔ اوسط شرح 18 کے بجائے 15 فیصد ہو سکتی ہے۔ تاہم، اوسط شرح 12 فیصد ہونی چاہیے جیسا کہ 2002 کی کیلکر ٹاسک فورس نے تجویز کیا تھا۔
آخر میں وفاقیت کا ذکر ضروری ہے۔ آئین کے مطابق صحت اور تعلیم جیسے شعبوں پر خرچ کی بڑی ذمہ داری ریاستوں پر ہے لیکن انہیں خودمختار آمدنی کے بہت کم ذرائع حاصل ہیں۔ جی ایس ٹی نے اس عدم توازن کو بڑھایا ہے، جس کی وجہ سے ریاستیں مرکزی منتقلی پر حد سے زیادہ انحصار کرنے لگی ہیں۔ مقامی ترقی اور عوامی بہبود کے لیے ریاستوں کو کچھ خودمختار ٹیکس عائد کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔
عام تاثر یہ ہے کہ جی ایس ٹی نے ہندوستان کی وفاقی روح اور ریاستوں کی مالی خودمختاری کو کمزور کیا ہے۔ ہمیں ایسے طریقے تلاش کرنے ہوں گے جن سے ریاستوں کو زیادہ مالی اختیارات اور خودمختاری واپس مل سکے، تاکہ وہ اپنی اقتصادی، سماجی اور علاقائی ضرورتوں کے مطابق پالیسیاں بنا سکیں۔ اس کے علاوہ عدم مساوات کم کرنے کے لیے بالواسطہ ٹیکسوں کے بجائے زیادہ سے زیادہ توجہ براہِ راست ٹیکسوں پر دینی ہوگی۔
(مضمون نگار ڈاکٹر اجیت راناڈے، معروف ماہر معاشیات۔ یہ ان کے ذاتی خیالات ہیں۔ ماخذ: دی بلین پریس)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔