سائنس

میٹھے کا کڑوا اثر، بھارت اور بنگلہ دیش میں شوگر کا مرض بڑھتا جا رہا ہے 

بھارت اور بنگلہ دیش میں ذیابیطس کا مرض بڑھتا جا رہا ہے۔ فاسٹ فوڈ کی بڑھتی مقبولیت کے تناظر میں اب صحت کی بہتر دیکھ بھال کی ضرورت دو چند ہو گئی ہے۔ ان ملکوں میں ذیابیطس، موت کی دس بڑی وجوہات میں ایک ہے

میٹھی خوراک کا کڑوا اثر، بھارت اور بنگلہ دیش میں بڑھتا ہوا
میٹھی خوراک کا کڑوا اثر، بھارت اور بنگلہ دیش میں بڑھتا ہوا 

''یہ ایک ایسی چیز ہے جو کبھی ختم نہیں ہو گی‘‘، یہ 17 سالہ روہن سارِن کے الفاظ ہیں جو نئی دہلی کے ایک اسکول کا طالب علم ہے۔ نیلے اور بھورے رنگ کے یونیفارم میں ملبوس اس کے دوستوں کو معلوم ہے کہ روہن کو ہر وقت مخصوص طبی آلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ یہ اکثر دیکھتے ہیں کہ جب روہن کی طبیعت خراب ہونے لگتی ہے تو اسے کیا کرنا ہوتا ہے۔ وہ اپنے اسکول بیگ سے انسولین پین نکالتا ہے اور خود کو انجیکشن لگاتا ہے۔ ساتھ ہی وہ توانائی فراہم کرنے والی غذا کا بھی استعمال کرتا ہے تاکہ اس کے خون میں شوگر کی سطح بہتر ہو سکے۔ سارِن کو دن میں چار مرتبہ انسولین کا انجیکشن لگانا پڑتا ہے۔

Published: undefined

’’انٹرنیشنل ڈیابیٹیز فیڈریشن‘‘ کے اندازوں کے مطابق بھارتی آبادی کا 8.8 فیصد ذیابیطس میں مبتلا ہے۔ دنیا کی دوسری سب سے بڑی آبادی کے حامل اس ملک میں یہ کم دکھائی دینے والی شرح دراصل ایک بڑی تعداد یعنی 115 ملین افراد بنتی ہے۔ ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جنہیں یہ ابھی معلوم ہی نہیں کہ وہ اس مرض میں مبتلا ہیں۔ اس طرح بھارت دنیا میں ذیابیطس کے مرض میں مبتلا بالغ افراد کی دوسری سب سے بڑی تعداد کا حامل ملک ہے۔ پہلے نمبر پر چین ہے۔

Published: undefined

بھارت کی میڈیکل ریسرچ کونسل (ICMR) کی طرف سے اپنی ایک تحقیق’انڈیا ڈیابیٹیز اسٹڈی‘ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ ذیابیطس کے علاوہ موٹاپا، ہائپر ٹینش اور میٹابولک سینڈروم جیسی غیر متعدی بیماریاں صحت عامہ پر ایک بڑا اور بڑھتا ہوا بوجھ بنتی جا رہی ہیں۔

Published: undefined

اس کی وجوہات کیا ہیں؟معاشی ترقی نے بھارتیوں کے لائف اسٹائل کو بدل دیا ہے۔ لوگ اب باہر سے زیادہ کھانا کھاتے ہیں اور روایتی سبزیوں پر مشتمل کھانے کی بجائے فاسٹ فوڈ کو ترجیح دیتے ہیں جیسے برگر، پیزا اور دیگر آسانی سے دستیاب خوراک۔ برگر کنگ نے جب نئی دہلی میں اپنا پہلا ریسٹورینٹ کھولا تو اس کے باہر لوگ قطاریں لگائے نظر آئے۔ یہ تبدیلیاں موٹاپے میں اضافے کا سبب بنی ہیں۔

Published: undefined

ذیابیطس کے مرض کی اقسام کے بارے میں جاننا اہم ہے۔ زیادہ تر بھارتی باشندے ٹائپ ٹو ذیابیطس میں مبتلا ہیں، جو عام طور پر اس وقت لاحق ہوتی ہے جب کسی شخص کے وزن کی حد جسم کی اُس صلاحیت سے تجاوز کر جاتی ہے جو انسولین کو پیدا کرتی ہے یا جو خوراک کو توانائی میں تبدیل کرنے کے لیے انسولین کو استعمال کرتی ہے۔ ٹائپ ون ذیابیطس میں تاہم جسم قدرتی طور پر ہی انسولین پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتا ہے۔

Published: undefined

ڈاکٹروں کے لیے ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ کافی زیادہ لوگوں میں اس مرض کی تشخیص ہی نہیں ہوتی۔ ’انٹرنیشنل ڈیابیٹیز فیڈریشن‘ کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ ایشیا میں نصف کے قریب ایسے افراد جو ذیابیطس میں مبتلا ہیں وہ اس بارے میں جانتے ہی نہیں۔ غیر تشخیص شدہ اور علاج کے بغیر ذیابیطس جان لیوا ہو سکتی ہے۔ یہ بیماری بھارت اور بنگلہ دیش میں موت کی 10 بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔

Published: undefined

’کیتھولک ہیلتھ ایسوسی ایشن آف انڈیا‘ کے ڈائریکٹر سمیر والسنگکار کہتے ہیں، ’’ذیابیطس ایک خاموش بیماری ہے، اس کی مخصوص علامات جیسے پیاس لگنا یا تھکن بہت زیادہ واضح نہیں ہوتیں۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں، ’’دیگر ممالک میں 40 برس سے زائد ہر شہری کا باقاعدگی سے ذیابیطس کا ٹیسٹ ہوتا رہتا ہے، لیکن بھارت میں ایسا نہیں۔ ہمارے صحت عامہ کے نظام پر ضرورت سے زیادہ بوجھ ہے، مناسب طبی آلات اور ادویات ہی دستیاب نہیں ہیں جن کے ذریعے لوگوں میں زبابیطس کی تشخیص یا طویل المدتی طور پر اس کا علاج کیا جائے۔ بہت سارے کیسز میں ذیابیطس کی نہ تو تشخیص ہوتی ہے اور نہ ہی علاج۔ جلد یا بدیر یا تو وہ بینائی سے محروم ہو جاتے ہیں، کسی جسمانی عضو سے محروم ہو جاتے ہیں یا پھر گردوں کی بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔‘‘

Published: undefined

بھارت اکیلا نہیں ہے۔ ہمسایہ ملک بنگلہ دیش بھی ایسی ہی صورتحال سے دو چار ہے۔ آج بنگلہ دیش میں 11 ملین افراد ذیابیطس کا شکار ہیں۔ 2045ء تک یہ تعداد بڑھ کر ایک تہائی تک ہو جائے گی۔ بنگلہ دیش کے ایک ڈاکٹر، ایکٹیوسٹ اور ’’رائٹ لائیولی ہُڈ ایوارڈ‘‘ جیتنے والے ظفر اللہ چوہدری اس کی وجہ ’’کھانے پینے کی عادات، ورزش نہ کرنا اور سگریٹ نوشی‘‘ کو قرار دیتے ہیں۔ چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مثال کے طور پر دیہی علاقوں میں مچھلی کمیاب ہو گئی ہے کیونکہ انہیں اپنی زندگی گزارنے کے لیے اسے فروخت کرنا پڑتا ہے اور خوراک کی قیمت بھی بڑھ رہی ہے: ’’نتیجے کے طور پر لوگ زیادہ کاربوہائیڈریٹس کھاتے ہیں۔ لہٰذا وہ چاول زیادہ اور سبزیاں کم کھاتے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ہی بدترین چیز جو ہو رہی ہے وہ کوکا کولا اور دیگر انرجی ڈرنکس کا استعمال بڑھنا ہے۔ یہ ایک بڑھتا ہوا رجحان ہے اور گراں قیمت ہے۔‘‘

Published: undefined

اس وقت 77 سالہ ظفر اللہ چوہدری نے 1972ء میں بنگلہ دیش کے دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات فراہم کرنے والی ایک تنظیم ’’گونوشاستھایا کیندرا‘‘ کی بنیاد رکھی تھی۔ چوہدری مزید کہتے ہیں، ’’یہ انرجی ڈرنکس، کولا، سگریٹ نوشی اور جسمانی مشقت کی کمی، وہ اس بات کا ادراک ہی نہیں رکھتے، چھوٹے چھوٹے فاصلوں کے لیے بھی وہ موٹر سائیکل استعمال کرتے ہیں۔ اسکولوں میں کھیل کے میدان نہیں ہیں۔ ہمارے شہر کے اسکولوں میں کھیل کے میدان نہیں ہیں۔ بچے نہ تو کھیلتے ہیں اور نہ ہی کھیلوں میں حصہ لیتے ہیں۔‘‘

Published: undefined

ایک مقامی اخبار ڈھاکا ٹریبیون نے 2017ء میں رپورٹ کیا تھا کہ بنگلہ دیش کی فوڈ سیفٹی اتھارٹی نے ملک میں دستیاب مختلف انرجی ڈرنکس کے نمونوں کی جانچ کی تھی: ’’زیادہ تر انرجی ڈرنکس میں 54 گرام چینی موجود تھی، جو 13.5 چائے کے چمچوں کے برابر چینی بنتی ہے۔‘‘

Published: undefined

چوہدری کے مطابق ضرورت اس بات کی ہے کہ معلومات اور صحت سے متعلق تعلیم کو عام کیا جائے اور اس مقصد کے لیے خاص طور پر دیہی علاقوں کے لوگوں کو تربیت فراہم کی جانے کی ضرورت ہے۔

Published: undefined

نئی دہلی سے تعلق رکھنے والا نوجوان روہِن سارن ذیابیطس کی تشخیص کے بعد سے اپنے عادات میں تبدیلی لا رہا ہے۔ اس نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ وہ اب تقریباﹰ ہر صبح کرکٹ کھیلنے جاتا ہے۔ سات برس قبل اس میں اس بیماری کی تشخیص ہونے کے بعد سے اب وہ میٹھی چیزوں اور سافٹ ڈرنکس وغیرہ سے پرہیز کرنا سیکھ چکا ہے۔ اس نے صورتحال کو تسلیم کر لیا ہے۔

Published: undefined

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined