سائنس

کیا مصنوعی ذہانت انسان کو غیر ضروری بنا دے گی؟

مصنوعی ذہانت تیزی سے ہر شعبے میں داخل ہو رہی ہے اور انسانی کردار بدل رہی ہے۔ البانیہ نے اے آئی وزیر مقرر کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ مستقبل میں انسان کی حیثیت اور فیصلہ سازی کہاں باقی رہے گی؟

<div class="paragraphs"><p>تصویر بشکریہ اے آئی</p></div>

تصویر بشکریہ اے آئی

 

مصنوعی ذہانت یعنی اے آئی آج دنیا میں ایک ایسا موضوع ہے جس نے ہر طرف تہلکہ مچا رکھا ہے۔ کچھ لوگ اسے انسانی ترقی کی معراج قرار دیتے ہیں تو کچھ اس کے خطرناک نتائج سے خوفزدہ ہیں۔ اس وقت سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ یہ ٹیکنالوجی مستقبل میں کتنی نوکریاں ختم کرے گی اور انسان کو کہاں لے جائے گی۔ ابھی اس کا درست اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ مصنوعی ذہانت تیزی سے ہر شعبۂ زندگی میں داخل ہو رہی ہے اور انسانی کردار کو بدل رہی ہے۔

اسی تناظر میں حالیہ دنوں میں ایک غیرمعمولی خبر سامنے آئی ہے کہ یورپ کے ملک البانیہ نے دنیا کی پہلی مصنوعی ذہانت پر مبنی وزیر کو تقرری دے دی ہے جس کا نام "ڈیئلا" رکھا گیا ہے۔ یہ خبر محض ایک تکنیکی پیش رفت نہیں بلکہ سیاسی و سماجی سطح پر ایک انقلاب کی حیثیت رکھتی ہے۔ ڈیئلا نے اپنے پہلے ہی خطاب میں کہا،"میں کسی کی جگہ لینے نہیں آئی ہوں۔ میری کوئی شہریت نہیں ہے، میرے کوئی ذاتی مقاصد یا اہداف نہیں ہیں۔ میں یہاں صرف انسانوں کی مدد کرنے آئی ہوں۔"

یہ بیان بظاہر تسلی بخش لگتا ہے مگر اس کے ساتھ ہی کئی خدشات بھی جنم لیتے ہیں۔ اگر ایک ملک اپنی حکومت میں مصنوعی ذہانت کو شامل کر سکتا ہے تو کیا آنے والے برسوں میں پارلیمان، عدلیہ اور انتظامیہ بھی روبوٹس کے سپرد ہو جائیں گے؟ اور اگر ایسا ہوا تو انسانی کردار کہاں باقی رہے گا؟

حقیقت یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت مستقبل ہے اور دنیا میں جو بھی ترقی ہوگی وہ اسی کے گرد گھومے گی۔ سرجری کے پیچیدہ آپریشنز سے لے کر فیکٹری کے پروڈکشن یونٹس تک، ریسٹورینٹ میں کھانا تیار کرنے سے لے کر سرو کرنے تک، اور عدلیہ میں مقدمات کی سماعت سے لے کر فیصلے سنانے تک  یعنی ہر جگہ اے آئی اپنی جگہ بنا رہی ہے۔ مستقبل میں وکیلوں اور شاید جج حضرات کا کام بھی اے آئی روبوٹس کے ذریعہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں انسانی کردار محدود ہوتا جائے گا اور مشینوں پر انحصار بڑھتا جائے گا۔

اس وقت جو روبوٹس تیار کیے جا رہے ہیں وہ جذبات سے عاری ہیں۔ وہ وہی کچھ کریں گے جو ان میں فیڈ کیا گیا ہوگا۔ بظاہر اس کے کئی فائدے ہیں۔ بدعنوانی ختم ہو جائے گی، سرکاری دفتروں میں تاخیر نہیں ہوگی، اسپتالوں کے غیر ضروری بلوں سے چھٹکارا ملے گا، عدالتوں کے فیصلے وقت پر ہوں گے اور کھانے کی کوالٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ سب کب تک اور کس قیمت پر؟

سب سے بڑا خطرہ اسی انسان کو ہے جس نے یہ ٹیکنالوجی بنائی ہے۔ کیونکہ جب انسان کا کردار ختم ہونے لگے گا تو سب سے بڑا نقصان بھی اسی کو ہوگا۔ انسان اپنی آسانی اور سہولت کے لیے جو راستہ اختیار کر رہا ہے وہ بظاہر روشن اور پرکشش لگتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ راستہ ایک ایسے گڑھے کی طرف لے جا رہا ہے جس کا اندازہ آج شاید کسی کو نہیں۔ آنے والی نسلیں ایک ایسی دنیا میں آنکھ کھولیں گی جہاں ترقی تو ہوگی مگر انسانی فیصلہ سازی اور جذبات کے لیے شاید کوئی جگہ باقی نہ بچے۔

البانیہ میں ڈیئلا کی تقرری کو سیاسی دنیا میں مصنوعی ذہانت کا پہلا عملی قدم کہا جا سکتا ہے۔ یہ ایک تجربہ ہے جو کامیاب بھی ہو سکتا ہے اور ناکام بھی۔ اگر یہ کامیاب ہوا تو ممکن ہے کہ دوسرے ممالک بھی اسی راستے پر چل پڑیں اور سیاست سے انسانی عمل دخل بتدریج کم ہوتا جائے۔ اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کرپشن ختم ہو جائے گا، فیصلے شفاف اور بروقت ہوں گے۔ لیکن پھر سوال یہ ہے کہ ہمارے سیاست دان کہاں جائیں گے؟ کیا وہ خود کو اس نئے نظام کے مطابق ڈھال سکیں گے یا تاریخ کے حاشیے پر چلے جائیں گے؟

یہ لمحۂ فکریہ ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ ترقی کی اس دوڑ میں کہاں تک دوڑنا ہے اور کہاں رک جانا ہے۔ ترقی اچھی چیز ہے لیکن اگر وہ انسان کو غیر ضروری بنا دے تو یہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ مصنوعی ذہانت کے مستقبل میں بے شمار امکانات ہیں، لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ ہم ایک ایسا توازن قائم رکھیں جس میں انسان اپنی حیثیت، اپنے جذبات اور اپنی اخلاقیات کے ساتھ باقی رہے۔ بصورت دیگر، ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک ایسی دنیا چھوڑ جائیں گے جو بظاہر ترقی یافتہ تو ہوگی مگر جذبات اور انسانیت سے خالی۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined