پریس ریلیز

مدرسوں کو سیل کرنے کا معاملہ: جمعیۃ علماء ہند کی عرضی پر اتراکھنڈ حکومت کو نوٹس جاری

مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ مدرسوں کو بند کرنے کی مہم مسلمانوں کو آئینی اختیار سے محروم کر دینے کی ایک بڑی سازش ہے۔

<div class="paragraphs"><p>اتراکھنڈ ہائی کورٹ</p></div>

اتراکھنڈ ہائی کورٹ

 

نئی دہلی: صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی کی عرضی پر 21 اکتوبر 2024 کو سابق چیف جسٹس وی آئی چندرچوڑ کی سربراہی والی 3 رکنی بینچ نے مدارس اسلامیہ کے خلاف کسی بھی کارروائی پر اور ان تمام نوٹسوں روک لگا دی تھی جو مختلف ریاستوں، خاص پر اترپردیش اور اتراکھنڈ حکومت کے ذریعے مدارس کو جاری کئے گئے تھے۔ اس میں کہا گیا تھا کہ عدالت کی طرف سے مزید نوٹس جاری کئے جانے تک کی مدت کے دوران اس تعلق سے اگر کوئی نوٹس یا حکم نامہ مرکز یا ریاست کی طرف سے جاری ہوتا ہے تو اس پر بھی بدستور روک جاری رہے گی۔ اس کے باوجود اترپردیش، تریپورہ اور اتراکھنڈ وغیرہ میں مدارس کے خلاف ہونے والی غیر منصفانہ اور امتیازی کارروائی ہو رہی تھی، جس کے خلاف جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کی تھی۔ اس پر سماعت کرتے ہوئے عدالت نے 14 مئی 2025 کو جمعیۃ علماء ہند کو اتراکھنڈ ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کی تھی۔

Published: undefined

اس ہدایت پر عمل کرتے ہوئے اتراکھنڈ ہائی کورٹ میں ایک عرضی داخل کی گئی تھی، جس پر آج سماعت ہوئی۔ اپنی اس عرضی میں جمعیۃ علماء ہند نے کہا ہے کہ اتراکھنڈ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ایکٹ 2016 میں رجسٹریشن کو لازمی قرار نہیں دیا گیا ہے اور نہ ہی غیر رجسٹرڈ شدہ مدرسوں کو غیر قانونی کہا گیا ہے۔ پٹیشن میں اس بات کو بھی اجاگر کیا گیا ہے کہ حق تعلیم ترمیمی ایکٹ 2012 میں واضح طور پر مدرسوں، ویدک پاٹھ شالاؤں اور اس نوعیت کے دیگر تعلیمی اداروں کو اس قانون سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ عرضی میں سپریم کورٹ کے ایسے متعدد فیصلوں کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جن میں اقلیتوں کو اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور انہیں چلانے کے غیر محدود حق کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں ریاست کی مداخلت سے تحفظ بھی فراہم کیا گیا ہے۔ عرضی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اتراکھنڈ میں صرف مدرسوں کو نشانہ بنانا غیر آئینی، امتیازی اور بدنیتی پر مبنی عمل ہے۔

Published: undefined

قابل ذکر ہے کہ چیف جسٹس کی سربراہی والی بینچ نے آج سماعت کی اور مدرسوں کے خلاف کی جا رہی غیر آئینی کارروائی کے خلاف ریاستی حکومت کو نوٹس جاری کیا۔ چیف جسٹس گوہانتن نریندر اور جسٹس سبھاش اپادھیائے نے جمعیتہ علماء ہند کی جانب سے پیش ہونے والے سپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ سنجے ہیگڑے کی بحث کی سماعت کے بعد سرکار کو جواب داخل کرنے کا حکم دیا۔ دوران سماعت سنجے ہیگڑے نے عدالت کو بتایا کہ ریاست میں دینی مدارس کو بغیر نوٹس دیے یکے بعد دیگرے بند کیا جا رہا ہے، جبکہ مدرسہ ایکٹ کے مطابق مدارس کا رجسٹریشن لازمی نہیں ہے۔ آئین ہند نے بھی اقلیتوں کو اپنے ادارے قائم کرنے کا حق دیا ہے۔

Published: undefined

سرکاری وکیل نے جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل عرضی پر اعتراض کیا اور کہا کہ اس معاملے میں جمعیتہ علماء ہند کو عرضی داخل کرنے کا قانونی حق نہیں ہے، کیونکہ جن مدارس کے خلاف کارروائی کی گئی ہے وہ آج عدالت کے سامنے نہیں ہیں۔ سرکاری وکیل کے اعتراض پر چیف جسٹس نے سنجے ہیگڑے سے سوال کیا کہ عدالت ان کی عرضی پر کیوں سماعت کرے کیونکہ وہ بالراست متاثر نہیں ہیں۔ اس سوال پر سنجے ہیگڑے نے کہا کہ یہ معاملہ صرف مدارس کو بند کرنے کا نہیں ہے بلکہ جس طرح سے حکومت منمانی کارروائی کر رہی ہے، اس کے خلاف کوئی بھی عدالت سے رجوع ہو سکتا ہے۔ ہماری یہ درخواست ہے کہ عدالت حکومت کو منمانی کرنے سے روکے اور قانون کی پاسداری کرنے کا پابند بنائے۔ انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ ریاست کی جانب سے مدارس کے خلاف کی جا رہی کارروائی اقلیتوں کو حاصل آئینی حقوق کے آرٹیکل 14، 15، 19، 25، 26 اور 30 کی خلاف ورزی ہے۔

Published: undefined

صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی نے ’جمعیۃ علماء کیوں؟‘ کے سوال پر کہا کہ مظلوموں کو انصاف دلانا اور انسانیت کی بنیاد پر بلاتفریق خدمت کرنا جمعیۃ علماء ہند کا مشن ہے۔ متاثرین کی درخواست پر ہی جمعیۃ علماء ہند نے عدالت کا رخ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگ ناواقف ہیں جبکہ تاریخ کی کتابوں میں درج ہے کہ انگریزوں کی غلامی سے ملک کو آزاد کرانے کی مہم علماء ہی نے شروع کی تھی۔ یہ علماء مدرسوں کے ہی پیداوار تھے۔ یہی نہیں، دارالعلوم دیوبند قائم ہی اسی لئے کیا گیا تھا تاکہ انگریزوں کے خلاف جدوجہد کرنے اور ملک کو آزاد کرانے کے لئے مجاہد پیدا کئے جائیں۔ جو لوگ مدارس کے خلاف یہ سب کر رہے ہیں، وہ لوگ مدارس کے کردار سے نابلد ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند کا تعلق مدارس اسلامیہ سے ہے، ہمارے سارے اکابر یہیں سے پڑھ کر باہر نکلے۔

Published: undefined

درحقیقت جمعیۃ علماء ہند مدارس اسلامیہ کی آواز اور ان کا ذہن ہے۔ فرقہ پرست طاقتیں اس تاریخ سے نابلد ہیں، یہ مدارس کے علماء ہی ہیں جب پوری قوم سو رہی تھی، تو انہوں نے ملک کو غلامی سے آزاد کرانے کا صور پھونکاتھا ، مدارس اسلامیہ ہماری شہ رگ ہیں اور ایسا کر کے ہماری شہ رگ کو کاٹ دینے کی منصوبہ بند سازش ہو رہی ہے، غیر قانونی کہہ کر مدارس کے خلاف کارروائی سپریم کورٹ کے فیصلہ کی توہین کے مترادف ہے۔ جمعیۃ علماء ہند اس سازش کے خلاف ایک بار پھر اپنی قانونی جدوجہد شروع کر چکی ہے، اس لئے کہ مدارس کی حفاظت دین کی حفاظت ہے، یہ مہم مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر ایک سنگین حملہ ہے، ہم جمہوریت، آئین کی بالادستی اور مدارس کے تحفظ کے لئے قانونی اور جمہوری جدوجہد جاری رکھیں گے۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined