
نئی دہلی: جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے کئی ریاستوں کے بلاک ایجوکیشن آفیسر س کی جانب سے تمام سرکاری و غیر سرکاری اسکولوں کے طلبا و سرپرستوں کو ’وندے ماترم‘ گانے اور اس کی ویڈیو ریکارڈنگ کی ہدایت دیے جانے کو آئینِ ہند کے تحت حاصل مذہبی آزادی کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے اور اسے خطرناک نظیر بتایا ہے۔ مولانا مدنی نے اس سلسلے میں وزیر اعظم نریندر مودی کے حالیہ بیان پر، جس میں انہوں نے وَندے ماترم کے بعض اشعار کے حذف کیے جانے کو تقسیمِ ہند سے جوڑنے کی کوشش کی ہے، کو گمراہ کن اور خلاف حقیقت بتایا ہے۔
Published: undefined
مولانا مدنی نے کہا کہ یہ نظم مکمل طور پر شرکیہ عقائد و نظریات پر مبنی ہے، بالخصوص اس کے باقی 4 اشعار میں وطن کو دُرگا ماتا سے تشبیہ دے کر اس کی عبادت کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، جو کسی بھی مسلمان کے ایمان و عقیدہ کے خلا ف ہے۔ ہندوستان کا آئین ہر شہری کو مذہبی آزادی (دفعہ 25) اور اظہارِ رائے کی آزادی (دفعہ 19) فراہم کرتا ہے۔ ان دفعات کے تحت کسی بھی شہری کو اس کے مذہبی عقیدے یا ضمیر کے خلاف کسی نعرے، گیت یا نظریے کو اپنانے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ معزز سپریم کورٹ کا بھی یہ فیصلہ ہے کہ کسی بھی شہری کو قومی ترانہ یا کوئی ایسا گیت گانے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا جو اس کے مذہبی عقیدے کے خلاف ہو۔
Published: undefined
مولانا مدنی نے واضح کیا کہ محبت اور عبادت دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ مسلمان اس ملک سے کس قدر محبت کرتے ہیں، یہ کسی کو باور کرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس ملک کی وحدت و سلامتی کی حفاظت اور آزادی کی تحریک میں مسلمانوں کی قربانیاں ناقابلِ فراموش ہیں۔ ہمارا یہ موقف ہے کہ حب الوطنی کا تعلق دلوں کی وفاداری اور عمل سے ہے، نعرے بازی سے نہیں۔
Published: undefined
مولانا مدنی نے وندے ماترم کے تناظر میں وزیر اعظم کے بیان کو بھی خلاف حقیقت قرار دیا اور کہا کہ تاریخی ریکارڈ بالکل واضح ہے کہ 26 اکتوبر 1937ء کو رابندر ناتھ ٹیگور نے پنڈت جواہر لال نہرو کو ایک خط میں مشورہ دیا تھا کہ وندے ماترم کی صرف ابتدائی 2 بندوں کو قومی گیت کے طور پر قبول کیا جائے، کیونکہ بقیہ اشعار توحید پرست مذاہب کے عقائد سے متصادم ہیں۔ یہی بنیاد تھی جس پر کانگریس ورکنگ کمیٹی نے 29 اکتوبر 1937ء کو فیصلہ کیا کہ صرف 2 بندوں کو قومی گیت کے طور پر منظور کیا جائے۔ اس لیے آج ٹیگور کے نام کا غلط استعمال کر کے جبراً اس نظم کو مسلط کرنے یا اس کے مکمل گانے کی بات کرنا نہ صرف تاریخی حقائق کے خلاف ہے بلکہ ملکی وحدت کے تصور کی توہین اور گروجی ٹیگور کی تحقیر بھی ہے۔
Published: undefined
یہ بھی قابل افسوس ہے کہ وزیر اعظم نے اس عمل کو تقسیم ہند سے جوڑا ہے، جب کہ رابندر ناتھ ٹیگور کا مشورہ قومی وحدت کے لیے تھا۔ مولانا مدنی نے زور دیا کہ ’وَندے ماترم‘ سے متعلق بحث دراصل مذہبی عقائد کے احترام اور آئینی آزادی کے دائرے میں ہونی چاہیے، نہ کہ سیاسی الزام تراشی کے انداز میں۔ جمعیۃ علماء ہند وزیر اعظم اور تمام قومی رہنماؤں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ ایسے حساس مذہبی و تاریخی معاملات کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال نہ کریں بلکہ ملک میں باہمی احترام، رواداری اور اتحاد کو فروغ دینے کی اپنی آئینی ذمہ داری پر کاربند رہیں۔
Published: undefined