سیاسی

کیا پاکستان باخبر تھا کہ ہندوستان کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے جا رہا ہے!

پاکستانی رہنما جنگ نہیں چاہتے لیکن عوام کا خیال ہے کہ کشمیر پر ہندوستان کے فیصلہ کی اطلاع پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اور دنیا کے دیگر رہنماؤں کو پہلے ہی سے تھی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

بھارت نے جموں و کشمیر کو دئے گئے خصوصی درجہ کو ختم کرکے اس کی تقسیم کر دی، اس کی یا تو پاکستان کو ہوا تک نہیں تھی یا پھر وہ اس معاملہ پر ہلکا پھلکا رد عمل ظاہر کر کے پاکستانی عوام کو گمراہ کر رہا ہے۔ لیکن جموں و کشمیر میں ہندوستان نے جو کچھ کیا اس کے حوالہ سے پاکستان میں ایک طرح کی خاموشی نظر آتی ہے۔ حالانکہ دکھاوے کے لئے پاکستانی قومی اسمبلی کا ایک خصوصی مشترکہ اجلاس طلب کیا گیا لیکن اس میں کوئی فیصلہ نہیں ہوا اور بغیر کسی قرارداد کے اجلاس اختتام پزیر ہو گیا۔

Published: 07 Aug 2019, 9:10 PM IST

اس اجلاس میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے جو کچھ کہا وہ قابل غور ہے۔ انہوں نے حزب اختلاف کی تنقید کے جواب میں کہا، ’مجھے بتاؤ میں کیا کروں، کیا ہندوستان پر حملہ کر دوں؟‘ اس کے جواب میں حزب اختلاف کے رہنما شہباز شریف نے کہا، ’نہیں، میں ہندوستان کے ساتھ جنگ شروع کرنے کی بات نہیں کر رہا۔‘ اس کے بعد عمران خان نے اس حوالہ سے قرارداد پیش کرنے کی بات کہی۔ اس طرح سے غور کریں تو کشمیر میں ہندوستان کے فیصلہ کے حوالہ سے پاکستانی قومی اسمبلی کے ارکان بظاہر متحد نظر آئے اور ان کے پیغام کا واضح مطلب یہ نکلا کہ ہندوستان کے ساتھ جنگ نہیں کرنی ہے۔

Published: 07 Aug 2019, 9:10 PM IST

پاکستانی فوج بھی ان حالات میں اسٹریٹجیک رویہ ہی اختیار کئے ہوئے ہے۔ اگرچہ ’فارمیشن کمانڈرس‘ کا ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا لیکن اس کے بعد جو پریس ریلیز منظر عام پر آئی اس میں کہا گیا کہ اس معاملہ میں کوئی کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ لیا گیا ہے۔ پریس ریلیز میں کہا گیا، ’’ہندوستان کی طرف سے کشمیر کے حوالہ سے لئے گئے فیصلہ کو پاکستانی حکومت کے یکسر مسترد کرنے کے موقف کی فارمیشن کمانڈرس تائید کرتے ہیں۔ پاکستان کبھی جموں و کشمیر سے دفعہ 370 اور ’35 اے‘ کو ہٹا کر اسے یونین آف انڈیا میں شامل کرنے کو قبول نہیں کرے گا۔ پاکستانی فوج کشمیریوں کے انصاف کی جنگ میں ان کے ساتھ ہے۔ اس حوالہ سے ہم کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہیں۔

Published: 07 Aug 2019, 9:10 PM IST

پاکستان کے کچھ تجزیہ کاروں کی نظر میں یہ پریس ریلیز محض ایک دھوکہ ہے۔ اس میں نہ تو کسی کارروائی کا ذکر ہے، نہ کسی حکمت عملی کا اور نہ ہی اس صورت حال میں آگے کیا کرنا ہے، اس کا کوئی ذکر ہے۔ یہ صرف لوگوں کو گمراہ کرنے والا بیان ہے۔

Published: 07 Aug 2019, 9:10 PM IST

پاکستانی وزارت خارجہ دو قسم کی حکمت عملی پر کام کرتی نظر آ رہی ہے لیکن اسے کامیابی کی امید نہیں ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے ذرائع کے مطابق شملا معاہدہ میں صاف لکھا ہے کہ جب تک کشمیر کا ایشو حل نہیں ہو جاتا، اس وقت تک دونوں ملک اپنے اپنے علاقوں کی صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں کریں گے۔ ایسے حالات میں ہندوستان نے جس طرح سے کشمیر کو یونین آف انڈیا میں شامل کیا ہے وہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان طے پائے گئے شملا معاہدہ کی خلاف ورزی ہے۔

Published: 07 Aug 2019, 9:10 PM IST

لیکن اس خلاف ورزی کی شکایت آخر کس بین الاقوامی فورم میں کی جائے، اس کے حوالہ سے محکمہ خارجہ پس و پیش میں ہے، کیوں کہ اس معاہدہ میں کوئی بھی فورم ضمانتی کے طور پر شامل نہیں ہے۔ محکمہ خارجہ کے سامنے ایک متبادل ہے کہ وہ عالمی عدالت سے رجوع کرے تاکہ ہندوستان کے خلاف فیصلہ ہو پائے۔ دوسرا متبادل اقوامی متحدہ سلامتی کونسل میں جانے کا ہے، کیوں کہ 1948 کی کشمیر پر آئی قرارداد کا معاملہ یہاں پہلے سے ہی موجود ہے۔ لیکن ان دونوں متبادل پر اتفاق رائے نہیں ہے۔ خدشہ یہ بھی ہے کہ دونوں ہی متبادل الٹے بھی پڑ سکتے ہیں اور اگر ایسا ہوا تو کیا ہوگا؟

حالانکہ پاکستانی عوام کے درمیان ماحول جنگ کی یلغار دے رہا ہے لیکن رہنما کم از کم اس متبادل کے حق میں تو نظر نہیں آ رہے۔

Published: 07 Aug 2019, 9:10 PM IST

ان تمام باتوں کے پیش نظر عام رائے یہ بن رہی ہے کہ عمران خان کو پہلے سے معلوم تھا کہ ہندوستان کشمیر میں کیا کرنے والا ہے، لہذا انہیں اس سے کوئی تعجب نہیں ہوا۔ وہیں حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مفاہمت کی جو پیش کش کی تھی، اس سے پہلے ممکنہ طور پر ٹرمپ نے عمران خان کو ہندوستان کی طرف سے کشمیر کے حوالہ سے لئے جانے والے قدم سے آگاہ کر دیا تھا۔

Published: 07 Aug 2019, 9:10 PM IST

خیال رہے کہ پاکستان نے حافظ سعید کو پہلی مرتبہ گرفتار کر کے جیل میں ڈالا ہے اور اس کی تنظیم جماعت الدعوہ پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، پاکستان میں اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ نہ صرف حافظ سعید جیل میں ہے بلکہ اس کے بہت سے ساتھی بھی جیل بھیج دئے گئے ہیں۔

Published: 07 Aug 2019, 9:10 PM IST

عمران خان اور پاکستانی تنصیبات لوگوں کے جذبات کو قابو میں رکھنے کی کوشش بھر کر رہی ہیں لیکن اس سب کے درمیان ایسے لوگ بھی ہیں جو مانتے ہیں کہ پاکستان کو کشمیر پر ہندوستان کے اقدام کو قبول کر لینا چاہئے اور اپنے قبضہ والے کشمیر (پی او کے) کے حوالہ سے بھی ایسا ہی فیصلہ لینا چاہئے۔ ان لوگوں کی نظر میں اس طرح دونوں ممالک کے درمیان عشروں سے چلا آ رہا مسئلہ کشمیر ختم ہو جائے گا۔

Published: 07 Aug 2019, 9:10 PM IST

پاکستان کے ایک ماہر دفاع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ اگر پنجاب اور بنگال ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تقسیم ہو سکتے ہیں تو کشمیر کیوں نہیں! انہوں نے کہا، ’’پاکستان اپنے حصہ والے کشمیر کو اپنا قرار دے اور ہندوستان اپنے کشمیر پر راج کرے۔ پاکستان کے تمام صوبے اسی طرح تقسیم شدہ ہیں۔ پنجاب اور بنگال اس کی سب سے بڑی مثالیں ہیں۔ یہاں تک کہ سندھ بھی کبھی ممبئی کا حصہ ہوتا تھا۔ خیبر پختون خواہ بھی افغانستان اور پاکستان کے درمیان تقسیم ہے۔ آدھا بلوچستان ایران کے ساتھ ہے۔ تو اگر کشمیر بھی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تقسیم ہو جائے تو کون سی قیامت آ جائے گی!‘‘

Published: 07 Aug 2019, 9:10 PM IST

جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبد اللہ کی 2017 کی ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں وہ کہتے نظر آ رہے ہیں، ’’جب واجپئی جی لاہور گئے تھے تو انہوں نے پاکستان کے سامنے تجویز رکھی تھی کہ پاکستان اپنے قبصے والے کشمیر کو رکھ لے اور ہندوستان اپنی طرف والا کشمیر رکھ لے لیکن اس تجویز پر کبھی عمل نہیں ہو سکا۔‘‘

Published: 07 Aug 2019, 9:10 PM IST

پاکستان میں لوگوں کو یقین ہے کہ ہندوستان کی طرف سے اس قسم کی پیش کش کئی سال سے کی جا رہی ہے لیکن پاکستان کبھی اسے ماننے کو تیار نہیں ہوا۔ لیکن اب ممکنہ طور پر نریندر مودی اور عمران خان کے درمیان ایسا کوئی اتفاق ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس معاملہ میں امریکہ اور دوسرے دنیا کے رہنماؤں کو بھی بھروسے میں لیا گیا ہے۔ ہندوستان نے پہلا قدم اٹھا لیا ہے اور اب ایسا ہی قدم پی او کے کے حوالہ سے پاکستان کو اٹھانا ہے۔ ایسا کرنے پر پاکستان کم از کم کچھ کھوتا تو نظر نہیں آئے گا۔

Published: 07 Aug 2019, 9:10 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 07 Aug 2019, 9:10 PM IST