سیاسی

صرف ای وی ایم نہیں، پورا انتخابی عمل فرضی... ابھے شکلا

چوری کیے گئے مینڈیٹ کے خلاف لڑائی میں وقت بہت تیزی کے ساتھ گزر رہا ہے، یہ سمجھنا ہوگا کہ حکومت کے ترکش میں ایسے تمام تیر ہیں جن کا زہر نکالنا ضروری ہے۔

<div class="paragraphs"><p>ای وی ایم اور الیکٹورل افسران، تصویر&nbsp;<a href="https://x.com/DCkhunti">@DCkhunti</a></p></div>

ای وی ایم اور الیکٹورل افسران، تصویر @DCkhunti

 

شملہ کے اوپر واقع میرے چھوٹے سے گاؤں میں رات کی خاموشی میں رہ رہ کر گیدڑوں کے چیخنے، ہرن کے ممیانے، الوؤں کی ایک آواز میں ہس-ہس یا پھر کبھی کبھار تیندوے کی کھانسی کی آواز ہی سنائی دے رہی تھی۔ لیکن اب میں واپس این سی آر آ گیا ہوں اور 23 نومبر کو انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد جو خاص طور پر سن رہا ہوں، وہ ہے شکست خوردہ اپوزیشن پارٹیوں کی جانی پہچانی آواز میں یہ کہنا کہ انتخاب میں گڑبڑی ہوئی اور مینڈیٹ کی چوری کر لی گئی۔

Published: undefined

کیا واقعی مینڈیٹ کی چوری کی گئی... شاید۔ سیدھے طور پر تو اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے، لیکن جب بھی اِس طرح کے کسی کام میں اُس ذمہ داری کو نبھا رہے لوگوں کا کردار ہوتا ہے، تو ثبوت آخر ملے بھی کیسے؟ اور جب حکومت اور برسراقتدار پارٹی خود اس میں شامل ہوں تو آپ ہی بتائیے، ثبوت اکٹھا کرنے میں کس کی دلچسپی ہوگی؟ لیکن الیکشن کمیشن کے ذریعہ نفرت انگیز تقاریر کو نظر انداز کرنا، رشوت کے پیسوں کی ضبطی پر خاموشی اور مہاراشٹر میں انتخاب کے نوٹیفکیشن میں سہولت آمیز تاخیر جس سے شندے کو سینکڑوں رعایتوں اور مفت سہولیات سے متعلق اعلان کرنے کا موقع مل گیا، کے علاوہ بھی کئی حالات پر مبنی اور حقیقی ثبوت ہیں جو اشارہ کرتے ہیں کہ ’ہاں، مینڈیٹ کی چوری ہوئی ہے‘۔ کچھ نکات پر نظر ڈالیں:

Published: undefined

مہاراشٹر میں شروعاتی گنتی کے مقابلے میں ووٹنگ فیصد میں تقریباً 8 فیصد کا اضافہ کیسے ہو گیا، جبکہ یہ نمبر کبھی بھی ایک فیصد سے زیادہ نہیں رہا؟ شام 5 بجے الیکشن کمیشن ووٹ ڈالنے والے مجموعی لوگوں کی جو گنتی بتاتا ہے، اس میں 76 لاکھ اضافی ووٹ جوڑے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر انتخابی حلقہ میں 26 ہزار اضافی ووٹ، جو اس حالت میں بے حد اہم ہو جاتا ہے جب 100 سیٹوں پر جیت کا فرق 26 ہزار سے کم رہا اور جن میں سے بیشتر میں بی جے پی کی جیت ہوئی۔

ایسے کیسے ہوتا ہے کہ جہاں بھی آخر وقت میں ووٹنگ فیصد میں اضافہ ہوتا ہے تو اس کا فائدہ، جیسا کہ کئی تجزیوں سے پتہ چلتا ہے، ہمیشہ بی جے پی کو ہی ہوتا ہے اور اس کا ’اسٹرائک ریٹ‘ ڈرامائی طور سے بڑھ جاتا ہے؟ یہ ایسی روش ہے جو پہلی بار گزشتہ لوک سبھا انتخابات کے دوران دیکھنے کو ملے اور اس کے بعد گزشتہ ماہ ہریانہ اسمبلی انتخاب کے بعد سے یہ مزید واضح ہوتا چلا گیا۔

پورے دن ووٹنگ ہونے اور کئی دنوں تک رکھے رہنے کے بعد بھی کچھ ای وی ایم میں 99 فیصد بیٹری چارج کیسے دکھائی دے سکتی ہے؟ اگر یہ عام ہے، تو چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار کو بجلی کے ایک قابل تجدید ذریعہ کی دریافت کے لیے فزکس کا نوبل ایوارڈ دیا جانا چاہیے، اور ان سبھی نیوکلیائی سائنسدانوں کو نظر انداز کر دینا چاہیے جو دہائیوں سے نیوکلیئر فیوژن پر کام کر رہے ہیں۔

بی جے پی کا اسٹرائک ریٹ محض 6 ماہ میں 32 سے بڑھ کر 90 فیصد کیسے ہو سکتا ہے؟ شندے اور اجیت پوار گروپ کے لیے بھی یہی بات کہی جا سکتی ہے جن کے گزشتہ لوک سبھا کارکردگی اور انتخاب سے قبل کے بیانات کی بنیاد پر بات کریں تو 25 فیصد کی شرح بھی بہت ہوتی۔

آخر کسی کو بھی این ڈی اے کی حمایت میں چل رہی سنامی کا کوئی اشارہ کیسے نہیں ملا؟ نہ تو زمین پر موجود صحافیوں کو اس کا اندازہ ہو سکا، نہ پولسٹرس کو اور نہ ہی خود سیاسی پارٹیوں کو؟ سینئر صحافی دیپک شرما اس پر طنزیہ لہجے میں کہتے ہیں کہ دراصل سنامی پولنگ مراکز میں نہیں بلکہ ای وی ایم میں تھی!

ووٹرس لسٹ سے بڑے پیمانے پر نام ہٹائے جانے، مسلم اور یادو افسران کو پولنگ افسر کے عہدہ سے ہٹائے جانے اور پولیس کے ذریعہ ووٹرس کو پولنگ مراکز تک پہنچنے سے جبراً روکنے (’نیوز لانڈری‘ سمیت کئی نیوز پورٹل نے اس پر ویڈیو بنائی) کے الزامات کی جانچ کے لیے الیکشن کمیشن نے کوئی کارروائی کیوں نہیں کی؟ نیوز رپورٹس اور ویڈیو سے پتہ چلتا ہے کہ اس طرح کے واقعے یوپی میں خوب ہوئے۔ ایسے بوتھوں پر از سر نو انتخاب کا حکم کیوں نہیں دیا گیا؟

این ڈی اے کی سنامی صرف ان 2 ریاستوں تک محدود کیوں رہی جہاں بی جے پی اقتدار میں ہے، جبکہ بنگال، جھارکھنڈ، کیرالہ اور کرناٹک میں تو اس کا اثر بھی نہیں ہوا؟ کیا ریاستی مشینری کے کنٹرول کا اس واقعہ سے کوئی لینا دینا ہے؟

الیکشن کمیشن نے ان سوالات پر خاموشی کیوں اختیار کر رکھی ہے اور وہ کئی صفائی کیوں نہیں دیتا؟ اس کی جگہ وہ ایسی ’شاعری‘ سناتا ہے جس سے غالب اور خسرو بھی اپنی قبروں میں تڑپ اٹھیں!

Published: undefined

مذکورہ بالا نکات سنگین شبہات پیدا کرتے ہیں جو عام شہریوں کو پریشان کرنے والے ہیں۔ ممکن ہے کہ ان نکات میں سے کچھ کی جائز وضاحت ہوں، لیکن الیکشن کمیشن کی خاموشی اندیشوں کو مزید گہرا بناتی ہے اور ایسا نظریہ بناتی ہے کہ کہیں کچھ تو گڑبڑی ہے۔ جیسا کہ پرکالا پربھاکر نے کرن تھاپر کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا ہے، یہ جیتنے والی پارٹی اور اس کی حکومت کے لیے مینڈیٹ کے جوائز پر سوالیہ نشان لگاتا ہے۔

Published: undefined

اس انتخابی روش کا ایک نام بھی ہے، اسے ’ہریانہ ماڈل‘ کی شکل میں جانا جاتا ہے۔ بی جے پی نے اس سال کے شروع میں ہریانہ میں اس پروٹوٹائپ کا تجربہ کیا اور پایا کہ یہ کارگر ہے، لہٰذا اب اسے بڑے پیمانے پر نافذ کیا گیا ہے۔ مستقبل میں یہ ’ایک ملک، ایک انتخاب، ایک پارٹی‘ کی عمارت کا اہم ستون بنے گا۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر پارٹیوں نے اس کا اندازہ کیوں نہیں لگایا؟

Published: undefined

مجھے لگتا ہے کہ انھیں اس کی امید تھی، لیکن لوک سبھا میں اپنی کارکردگی کے بعد وہ لاپروا ہو گئی تھیں۔ سالوں سے سول سوسائٹی سے لے کر مختلف تنظیمیں اور لوگ اس خطرے کے بارے میں تنبیہ کر رہے ہیں اور ان سے ’ہریانہ ماڈل‘ کو کارگر ہونے سے روکنے کے لیے فوری سیاسی اور قانونی کارروائی کرنے کی گزارش کر رہے ہیں۔ امید ہے کہ کناگریس اور اس کی ساتھی پارٹیاں اب یہ سمجھ گئی ہوں گی کہ انھیں مستقبل میں کسی بھی اہم انتخاب میں جیتنے نہیں دیا جائے گا؛ انھیں بس اتنی سیٹیں دی جائیں گی کہ انتخابی عمل پر بھروسہ کا احساس قائم رہے۔

Published: undefined

اپوزیشن پارٹیاں مزید کچھ وقت کے لیے ان چند ریاستوں میں جیت سکتی ہیں جہاں ان کی حکومتیں ہیں، لیکن یہ گنتی یقیناً ہی گھٹتی جانے والی ہے۔ انھیں جنوبی ریاستوں کے بی جے پی کے خلاف کھڑے ہونے سے کوئی راحت نہیں ملنے والی۔ پارلیمانی سیٹوں کی جو نئی حد بندی ہونے جا رہی ہے، اس سے جنوب کا جو بھی تھوڑا بہت اثر ہے، وہ بھی ختم ہو جائے گا۔ تب اپوزیشن کی شکایتوں کے تئیں کوئی بھی ہمدردی نہیں رکھے گا۔ سبھی اداروں کو خاموش کرا دیا گیا ہے، یا اس نازی وادی گٹھ جوڑ میں شامل کر لیا گیا ہے، میڈیا کو خرید لیا گیا ہے، اور عوام تھک گئی ہے۔ صرف مایاوتی نے ہی وجود بچائے رکھنے کی اپنی انوکھی سمجھ کی وجہ سے اسے محسوس کیا ہے۔

Published: undefined

اب صرف ای وی ایم-وی وی پیٹ نظام ہی مشتبہ نہیں ہے، بلکہ پورا انتخابی عمل، جس میں الیکشن کمیشن کی دیکھ ریکھ، انتخابی پروگرام کا نوٹیفکیشن، کثیر مرحلہ میں ووٹنگ کے لیے دی جانے والی دلیلیں، ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد، ووٹر لسٹ تیار کرنا، ووٹرس کو پریشان کرنا، ووٹ شماری عمل، ووٹنگ ڈاٹا کے اعداد و شمار جاری کرنے میں عدم وضاحت، فارم-17 کی تقسیم... سبھی شبہات کے گھیرے میں ہیں۔

Published: undefined

’انڈیا بلاک‘ اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں کو محسوس کرنا چاہیے کہ جنگ کا میدان ای وی ایم سے کہیں آگے تک پسر گیا ہے۔ یہ اب ایک محاذ والی لڑائی نہیں رہ گئی ہے۔ بھلے ہی کل ای وی ایم کو بیلٹ پیپر سے بدل دیا جائے، لیکن حکومت کے ترکش میں ایسے تمام تیر ہیں جن کا زہر نکالنا ہوگا۔ ’بھارت جوڑو‘ یاترائیں اور سپریم کورٹ میں عرضیاں اب کام نہیں آئیں گی۔ یہ سب ایک غیر پولرائز اور جمہوری سماج میں کام کر سکتی ہیں، جو اب نہیں رہا۔ انڈیا بلاک کو یہ لڑائی اب لوگوں تک لے جانی چاہیے۔ اسے سب سے پہلے تینوں الیکشن کمشنرز کے خلاف مواخذہ کی تحریک پیش کرنی چاہیے۔ پارلیمنٹ میں اپوزیشن اراکین کی تعداد کو دیکھتے ہوئے بے شک یہ ناکام ہو جائے گا، لیکن کبھی دنیا کا سرفہرست ادارہ رہا الیکشن کمیشن میں جگہ بنا چکی سڑاندھ کی طرف بین الاقوامی طبقہ کی توجہ تو جائے گی۔

Published: undefined

انڈیا بلاک کو ایک ساتھ دو مطالبات کا اعلان کرنا چاہیے: 1) ای وی ایم کو بیلٹ پیپر سے بدلیں، اور 2) الیکشن کمشنرز کی تقرری کے لیے موجودہ سلیکشن کمیٹی ختم ہو اور سپریم کورٹ کے ذریعہ حکم کردہ کمیٹی کو واپس لائیں جس میں چیف جسٹس رکن ہوں۔ جب تک یہ مطالبات مان نہیں لیے جاتے، تب تک اسے سبھی انتخابات کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ ظاہر ہے وہ نہیں مانیں گے، لیکن آسان متبادل اب رہا نہیں۔

Published: undefined

بیلٹ پیپر سسٹم میں اپنی خامیاں ہیں جس میں بوتھ کیپچرنگ اور فرضی ووٹ ڈالنا شامل ہے۔ لیکن تب ہمیں کم از کم ان واقعات کے بارے میں پتہ تھا، ہم اسے قبول کرتے تھے کہ وہ ناجائز ہیں اور انھیں بہتر کرنے کے طریقے سوچ سکتے تھے۔ لیکن ای وی ایم کے ساتھ یہی کام وسیع پیمانے پر بے حد ہنرمندی اور صفائی سے کیا جا رہا ہے۔ جو غلط ہو رہا ہے اس کا پتہ بھی نہیں لگایا جا سکتا اور اس کی کوئی جوابدہی بھی نہیں ہے۔

Published: undefined

انتخابات کا بائیکاٹ کرنے سے اتحاد کے سامنے کچھ وقت کے لیے حاشیے پر جانے کا جوکھم ہوگا اور بی جے پی کو اپنی مرضی کے مطابق کام کرنے کی کھلی چھوٹ بھی مل جائے گی، لیکن ان مضحکہ خیز انتخابات میں حصہ لینا جاری رکھنے کا مطلب ہے کہ وہ اپوزیشن اتحاد ہارتا رہے گا، اور اس سے بھی اہم یہ کہ اس مضحکہ خیز انتخابی عمل اور بی جے پی کی جیت کو جائز ٹھہرایا جاتا رہے گا۔

Published: undefined

یہ امید کرنا کہ وقت گزرنے کے ساتھ چیزیں بہتر ہو جائیں گی یا بدل جائیں گی، بے کار ہے۔ قیمتی وقت گزرتا جا رہا ہے۔ جیسا کہ کسی نے کہا ہے: یہ جو گزر رہا ہے، وہ وقت نہیں، زندگی ہے۔

(ابھے شکلا سبکدوش آئی اے ایس افسر ہیں۔ یہ مضمون https://avayshukla.blogspot.com پر شائع انگریزی مضمون کی مختصر شکل ہے۔)

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined