سیاسی

طلاق ثلاثہ سے کہیں زیادہ اہم مسائل ملک کے سامنے ہیں

طلاق ثلاثہ کو جرم کے زمرے میں ڈالنا غلط قدم ہے۔ جس طرح جہیز مخالف قانون کا غلط استعمال ہوا اسی طرح اس قانون کا بھی استعمال لڑکے والوں کو پریشان کرنے کے لئے کئے جانے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے کل دیر رات طلاق ثلاثہ کے آرڈیننس پر دستخط کر دیا اور ان کے دستخط کے بعد ایک نشست میں تین مرتبہ طلاق دینا ایک غیر ضمانتی مجرمانہ فعل ہو گیا ہے۔ اور اب جو شوہر بھی ایسا کرے گا اس کو تین سال تک کی سزا ہوسکتی ہے۔ اس میں شکایت کرنے کا حق متاثرہ بیوی اور اس کے والدین اور بھائی کو ہوگا۔ ایسی صورت میں بچوں کی کفالت والدہ کے پاس رہے گی اور مجسٹریٹ جو نان نفقہ طے کرے گا وہ شوہر کو دینا ہو گا۔ اگر دونوں میاں بیوی صلح کرنا چاہیں تو مجسٹریٹ کے پاس صلح کرانے کے اختیارات ہوں گے ۔ ویسے اس آرڈیننس کا اطلاق مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر میں نہیں ہوگا۔

جس وقت ملک کئی اہم مسائل سے جوجھ رہا ہے ، جس وقت پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں ، ڈالر کے مقابلہ ہمارے روپے کی قیمت مستقل گر رہی ہے ، جس وقت کسان اپنی زرعی پیدوار کو لے کر پریشان ہے، جس وقت ملک کا نوجوان بڑھتی بے روزگاری سے پریشان ہے، ملک کا تاجر اس لئے پریشان ہے کہ اس کا کاروبار ختم ہو رہا ہے ، جس وقت بینکو کی حالت اتنی خراب ہے کہ کئی بینکوں کا انضمام کرنا پڑ رہا ہے، ایسے ماحول میں حکومت نے تمام چیزوں کو چھوڑ کر اس بات پر توجہ دی کہ طلاق ثلاثہ، جس کو راجیہ سبھا کے ارکان پارلیمانی کمیٹی کو سونپنا چاہتے ہیں اس کو قانون بنانے کے لئے آرڈیننس لا یا جائے ۔ کیا حکومت یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ اگر اس کی راجیہ سبھا میں اکثریت نہیں ہے تو اس کے پاس آ رڈیننس کا راستہ تو ہے۔

Published: 20 Sep 2018, 7:03 PM IST

گزشتہ سال اگست ماہ میں پانچ رکنی سپریم کورٹ کی بنچ نے طلاق ثلاثہ کو غیر آئینی قرار دیا تھا اور واضح رہے کہ یہ فیصلہ متفقہ نہیں تھا بلکہ اس میں تین جج حامی تھے تو دو کی علیحدہ رائے تھی ۔ بہرحال مسلم سماج نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو دل سے قبول تو کیا تھا مگر عوامی طور پر اس کا استقبال اس لئے نہیں کیا گیا تھا کیونکہ ان کو اس میں بے عزتی محسوس ہو رہی تھی ۔ اس بے عزتی کے احساس کے لئے کل ہند مسلم پرسنل لاء بورڈ ذمہ دار ہے کیونکہ ایک طرف تو عدالت میں اس نے کہا تھا کہ ہم طلاق ثلاثہ کے خلاف مسلمانوں میں بیداری مہم چلا رہے ہیں ساتھ میں وہ اس کے خلاف دستخطی مہم بھی چلاتا رہا ۔ بورڈ نے کسی بھی وقت اس جرأت کا مظاہرہ نہیں کیا کہ وہ اعلانیہ اس بات کو کہتا کہ ایک نشست میں تین مرتبہ طلاق دینا غلط اور طلاق بدعت ہے۔ ویسے ترکی میں1926، مصر میں 1929، تیونیشیا میں 1955، پاکستان میں 1961، بنگلہ دیش میں 1971 اور سری لنکا میں 2006 میں اس قانون کو ختم کرد یا گیا تھا ۔ ان ممالک کے علاوہ بھی کئی ممالک میں یہ رائج نہیں ہے اس لئے اس کے ختم کئے جانے پر مسلمانوں کو کوئی اعتراض نہیں تھا ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ ضرور اس کی مخالفت کر تا رہا ہے اور کرے گا ، اور اس کا فائدہ مسلمانوں کو تو اب نہیں ہوگا البتہ مسلم مخالف قوتوں کو ضرور فائدہ ہو گا۔

اس عمل کو جرم کے زمرے میں ڈال کر اس قانون کے غلط استعمال کے لئے راستے کھول دئیے ہیں ۔ جس طرح جہیز مخالف قانون کا غلط استعمال ہوا اسی طرح اس قانون کا بھی استعمال لڑکے والوں کو پریشان کرنے کے لئے کئے جانے کا خدشہ بڑھ گیا ہے اور اس کے لئے ہم خود ذمہ دار ہیں کیونکہ ہم نے اپنا کام کیا نہیں، اور شریعت میں مداخلت کی گنجائش پولس اور عدالت کو فراہم کر دی۔

Published: 20 Sep 2018, 7:03 PM IST

کسی بھی دور میں ایک نشست میں تین مرتبہ طلاق دے کر اپنی شریک حیات کو علیحدہ کر دینا کسی بھی رو سے درست نہیں تھا ۔ جن حالا ت میں بھی یہ چلن میں آیا ہو لیکن اب اس کی ضرورت نہیں ہے۔ علیحدگی کے لئے طلاق احسن کا ایک طریقہ شریعت میں موجود ہے جس میں ایک ساتھ کتنی مرتبہ بھی طلاق دیں اس کو ایک ہی شمار کیا جائے گا اور عدت کی مدت کے دوران رجوع کرنے کا حق ہوگا جس کے لئے نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح ہو گا۔ اگر یہ شخص رجوع کرنے کے بعد دوبارہ طلاق دیتا ہے تو اس کو دوسری طلاق شمار کیا جائے گا اور ایسے ہی تیسری مرتبہ لیکن تین مرتبہ کے بعد رجوع کا کوئی حق نہیں رہے گا۔

اسلام کی بہت ساری خوبیوں میں ایک سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس مذہب نے خواتین کو بہت حقوق دیئے ہیں اور یہ حقوق اس وقت دیئے جب دنیا کی کسی بھی تہذیب نے نہیں دیئے تھے ۔ حکومت کو جہاں اس مدے پر سیاست نہیں کرنی چاہئے وہیں مسلمانوں کی نمائندہ تنظیموں کو بھی مسلمانوں کو درپیش مسائل کو سنجیدگی سے لینا چاہئے اور اس کے ضروری حل نکالنے چاہئے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ حکومت ملک کو درپیش مسائل کو سنجیدگی سے لیتی اور طلاق ثلاثہ کی جگہ ان کو اپنی ترجیحات میں شامل کرتی۔

Published: 20 Sep 2018, 7:03 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 20 Sep 2018, 7:03 PM IST