سیاسی

بہار کے عوام جھارکھنڈ کی راہ پر چل کر فسطائی فرقہ پرست طاقت کو شکست دیں... عبید اللہ ناصر

بہار ہو یا کسی بھی ریاست کا اسمبلی الیکشن وہ در اصل فسطائی فرقہ پرست زہریلے درخت کی شاخ کاٹنے کا بہترین موقعہ ہوتا ہے، اگر زہریلے درخت کی شاخیں کاٹ دی جائیں تو درخت خود بخود سوکھ کر گر جائے گا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

بہار میں چناوی چوسر بچھ چکی ہے ابتدائی مرحلہ میں سیاسی گٹھ بندھن کو لے کر غیر یقینی صورت حال کے جو بادل چھائے ہوئے تھے وہ صاف ہو چکے ہیں اس بار دو روایتی حلیفوں اور دو روایتی گٹھ بندھن یعنی تیجسوی یادو کی قیّادت میں راشٹریہ جنتا دل اور کانگریس کے علاوہ بائیں بازو کی تینوں اہم پارٹیاں شامل ہیں اور وہی اس مہاگٹھ بندھن کی طرف سے وزیر اعلی کا چہرہ ہیں جبکہ بی جے پی جنتا دل یو اور بھارتیہ عوام پارٹی کا این ڈی اے گٹھ بندھن جس نے ایک بار پھر نتیش کمار پر داوں لگایا ہے۔ اس بار ایک اور نیا گٹھ بندھن بنا ہے جس میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسملمین، بہوجن سماج پارٹی اور اوپندرا کشواہا کی پارٹی شامل ہے، اس نے اوپندر کشواہا کو وزیر اعلی کے طور پر پیش کیا ہے۔

Published: 18 Oct 2020, 11:59 PM IST

آنجہانی رام ولاس پاسوان کے انتقال کے بعد پہلی بار ان کی لوک جن شکتی پارٹی ان کے بیٹے اور نوجوان لیڈر چراغ پاسوان کی قیادت میں آزادانہ الیکشن لڑ رہی ہے، حالانکہ چراغ پاسوان واضح کر چکے ہیں کہ مرکز میں وہ اب بھی این ڈی اے کا حصہ ہیں اور ان کے دل میں نریندرمودی ہی بستے ہیں۔ بہار میں ان کی اصل لڑائی نتیش کمار سے ہے اور اسی لئے انہوں نے بی جے پی کے خلاف محض پانچ امیدوار اتارے ہیں اور اس کو دوستانہ لڑائی قرار دیا ہے، جبکہ نتیش کمار کی جنتا دل یو کے خلاف سبھی سیٹوں پر امیدوار اتارے ہیں۔

Published: 18 Oct 2020, 11:59 PM IST

سیاسی مبصرین اسے نریدںرہ مودی اور آر ایس ایس کی ایک بڑی سیاسی حکمت عملی بتا رہے ہیں جس کا مقصد نتیش سے پیچھا چھڑا کر بی جے پی کا وزیر اعلی بنانا ہے، کیونکہ بی جے پی اب بہار میں ان کے سایہ سے باہر نکلنا چاہتی ہے۔ بی جے پی کی حکمت عملی ہے کہ چراغ پاسوان جتنے مضبوط ہون گے، نتیش اتنے ہی کمزور ہون گے اگر چراغ کی حکمت عملی کامیاب ہو گئی اور بی جے پی کے ممبران اسمبلی کی تعداد زیادہ ہوئی تو وہ چراغ کی مدد سے وزیر اعلی کی کرسی پر قبضہ کر سکتی ہے۔ حالانکہ وہ ابھی بھی نتیش کو ہی وزیر اعلی بنانے کی بات کر رہی ہے اور چراغ کو ووٹ کٹوا تک بتا رہی ہے لیکن پس پردہ کیا کھیل چل رہا ہے اسے سمجھنا مشکل نہیں ہے۔ سیاست میں کوئی مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا اور نتیش سے بڑھ کر اس کا نمونہ اور کون ہو سکتا ہے، جنہوں نے سیاسی وفاداری بدلنے میں بے شرمی کی ساری حدیں پار کر دی ہیں۔

Published: 18 Oct 2020, 11:59 PM IST

سیاسی وفاداری بدلنے کی بات چلی تو یہ یاد دلانا بھی ضروری ہے کہ بی جے پی کی قدیمی حلیف شیو سینا اور اکالی دل اس کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں، نتیش کمار سے بھی اس کے کھٹے میٹھے رشتہ رہتے ہیں، لیکن جو اس کے دیرینہ حلیف ہیں اور جو تقسیم وطن سے پہلے سے ہی اس کے معاون رہے ہیں اور جو ہر کڑے وقت میں اس کی مدد کو آ جاتے ہیں یعنی جناح اور پاکستان نے اس کا ساتھ نہیں چھوڑا ہے۔ قارئین کو یاد دلا دیں کہ تقسیم سے قبل جب متعدد ریاستوں میں عبوری سرکاریں بن رہی تھیں تو مسلم لیگ اور ہندو مہاسبھا نے بنگال، سندھ اور صوبہ سرحد میں مل کر حکومت بنائی تھی۔ بنگال میں تو خود شیاما پرساد مکھرجی نائب وزیر اعلی بنے تھے جبکہ مسلم لیگ کے فضل حق وزیر ا علی تھے۔

Published: 18 Oct 2020, 11:59 PM IST

آزادی کے بعد ہر انتخابی جنگ میں بی جے پی پاکستان، جناح اور مسلمانوں کو استعمال کرتی رہی ہے اس بار بہار میں بھی ان کا استعمال ہو رہا ہے اور دربھنگہ ضلع کے ایک حلقہ سے کانگریس کے امیدوار کے طور میدان میں اترے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے سابق صدر مشکور عثمانی پر یونیورسٹی میں جناح کی فو ٹو لگانے کے معاملہ کو وہاں اچھالا جا رہا ہے، جبکہ یہ فوٹو تیس کی دہائی میں وہاں لگی تھی جب جناح صاحب یونیورسٹی کے دورہ پر آئے تھے، اسی طرح مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ نتیانند راۓ نے بہاری ووٹروں کو ڈرایا ہے کہ اگر ان کی پارٹی ہاری تو کشمیر کے دہشت گرد بہار میں خوں کی ندی بہا دیں گے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بی جے پی مسلمان، پاکستان، شمشان، قبرستان جیسے ایشوز کے علاوہ کبھی اپنی کارکردگی کے بنیاد پر چناؤ لڑ ہی نہیں سکتی۔ ایک سینئر صحافی کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اگر مسلمان اور پاکستان نہ ہو تو بی جے پی لوک سبھا، ودھان سبھا کیا گرام سبھا کا بھی چناؤ نہیں جیت سکتی ہے۔

Published: 18 Oct 2020, 11:59 PM IST

مودی اور سنگھ پریوار کے دوسرے حلیف وہ طالع آزما نام نہاد علما ہیں جو چینلوں پر چند روپیوں کے لئے خود گالی کھاتے ہیں اور قوم کو ذلیل کرواتے ہیں وہ بھی میدان میں اتر چکے ہیں، پٹنہ کے فائیو اسٹار ہوٹل میں ان کی پریس کانفرنس کا بل کس نے ادا کیا ہوگا اسے سمجھا جا سکتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ قوم کو ورغلانے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرتے نہ ہی عام مسلمان ان کی اپیل پر ووٹ دیتا ہے مگر ہر الیکشن میں یہ کسی نہ کسی شکل میں ووٹوں کی دلالی کرنے پہنچ جاتے ہیں کیا کبھی کسی نے کسی سکھ گرنتھی، جین منی یا بودھ بھکشو کو ووٹوں کی دلالی کرتے ہوئے دیکھا ہے، یہ خاصیت صرف ضمیر فروش طالع آزما مسلم علما کو ہی حاصل ہے، جو خود کو سیاسی طور سے بھی عقل کل سمجھتے ہیں اور مسلمانوں کو؟؟؟

Published: 18 Oct 2020, 11:59 PM IST

ویسے تو بہار اسمبلی چناؤ میں غیر یقینی کے ایک بادل تو نئے گٹھ جوڑ بننے بگڑنے کے تھے جو اب چھنٹ گئے ہیں لیکن اصل کھیل شروع ہوگا نتائج کے اعلان کے بعد، خاص کر اگر مہا گٹھ بندھن اور این ڈی اے میں سے کسی کو واضح اکثریت نہ مل سکی۔ اوپندرا کشواہا جو پہلے بھی این ڈی اے کا حصہ ہی نہیں بلکہ مودی کابینہ میں وزیر بھی رہ چکے ہیں اور بی ایس پی جس سے بی جے پی کی نزدیکی کوئی پوشیدہ راز نہیں ہے، پھر پالا بدل بھی سکتی ہے، یہی حال جتن رام مانجھی کا بھی ہے جو سیاسی قلا بازی کھانے میں مہارت دکھا چکے ہیں۔ معلق اسمبلی کی صورت میں بی جے پی اپنی دولت اور سرکاری طاقت کے بل پر اقتدار حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشس کرے گی اور راج بھون اس کے ہاتھ میں تو ہے ہی۔ لیکن بہار کے انقلابی اور زبر دست سیاسی بصیرت رکھنے والے عوام اس حقیقت سے واقف ہیں اور یقین یہی ہے کہ وہ حتمی فیصلہ کریں گے اور کوئی امکان نہیں چھوڑیں گے۔

Published: 18 Oct 2020, 11:59 PM IST

بہار اسمبلی الیکشن کے ایشوز بھی واضح ہیں 15 سال تک بر سر اقتدار رہنے کے بعد اب نتیش کمار کے پاس نیا کچھ کہنے کو بچا نہیں ہے اب وہ جو بھی وعدہ کریں گے جو بھی نیا کرنے کے لئے کہیں گے تو فطری طور سے ان سے پوچھا جائے گا کہ اب تک کیوں نہیں کیا تھا، جبکہ تیجسوی کہنے اور کرنے کے لئے بہت سے وعدے کر سکتے ہیں اگر باپ کے جرم کے لئے بیٹا ذمہ دار نہیں ہے تو بہار کے لالو کے دور کے منفی معاملات خاص کر امن عامہ کی خراب صورت حال کے لئے انھیں کیسے ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہے یا ان سے کیسے حساب مانگا جا سکتا ہے۔ وہ اگر روزگار دینے ریاست میں صنعت کو فروغ دینے اور ترقیاتی کاموں کا وعدہ کر رہے ہیں تو اپنی صاف شبیہ بھی دکھا سکتے ہیں جس پر کوئی داغ نہیں ہے۔

Published: 18 Oct 2020, 11:59 PM IST

حالانکہ نتیش اور بی جے پی لالو کے دور کے نام نہاد جنگل راج کے سوال کو بار بار اٹھا رہے ہے لیکن عوام کے سامنے تیجسوی کی صاف شبیہ ہی ہے۔ دوسرے الیکشن کوئی بھی ہو چہرہ بھلے ہی نتیش ہوں لیکن اس وقت اصل موضوع تو ملک کی بد حال معیشت، بے انتہا بیروزگاری، چوپٹ کاروبار، کسانوں کی بدحالی، نئی زرعی پالیسی، غیر محفوظ سرحدیں اور بکھرتا ہوا سماجی تانا بانا ہے۔ ووٹ تو در اصل نریندر مودی کی پالیسی اور حکمرانی پر پڑیں گے، دیکھنا یہ ہے کہ بہار کے عوام جھارکھنڈ کے عوام کی طرح فسطائی طاقتوں کے تابوت میں کیل ٹھونکیں گے یا اسے کھاد پانی دے کر پنپے کا موقعہ دیں گے بہار ہو یا کسی بھی اسمبلی کا الیکشن وہ در اصل فسطائی فرقہ پرست زہریلے درخت کی شاخ کاٹنے کا بہترین موقعہ ہوتا ہے، اگر زہریلے درخت کی شاخیں کاٹ دی جائیں تو درخت خود بخود سوکھ کر گر جائے گا۔

Published: 18 Oct 2020, 11:59 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 18 Oct 2020, 11:59 PM IST