سیاسی

الوداع 2025: دنیا میں سیاسی عزائم کا بحران... اشوک سوین

خانہ جنگی نے گہرائی اختیار کر لی ہے، علاقائی جنگ وسیع ہو گئی ہے، کمزور و متوسط آمدنی والے ممالک میں سیاسی تشدد کی گرفت بڑھی ہے اور دائیں بازو کی سیاست میں انسانی امداد کی فنڈنگ میں تیز گراوٹ آئی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>گرافکس ’اے آئی‘</p></div>

گرافکس ’اے آئی‘

 

2025 اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ یہ سال بین الاقوامی نظام کی موت کے سال کی شکل میں یاد رکھا جائے گا۔ رواں سال جنگیں کئی گنا تیز ہو گئیں، لوگوں کی ہجرت تاریخی سطح تک پہنچ گئی، انسانی ہمدردی کی ایجنسیوں کو بڑھتی ہوئی ضروریات اور گھٹتے ہوئے وسائل کو تضاد کا سامنا کرنا پڑا، کثیر فریقی ادارے کمزور ہوئے اور فوجی اخراجات نے سماجی تحفظ کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اب جبکہ 2025 ہمیں الوداع کہنے والا ہے، عالمی برادری اس ناگوار حقیقت کو سامنے دیکھ رہی ہے کہ 2026 اس سے بھی زیادہ غیر مستحکم ہونے والا ہے۔

Published: undefined

تنازعات پر نظر رکھنے والی تنظیموں نے سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد منظم تشدد میں سب سے تیز اضافہ درج کیا ہے۔ خانہ جنگیاں مزید گہری ہو گئی ہیں، علاقائی جنگوں نے وسعت اختیار کر لی ہے، کمزور اور متوسط آمدنی والے ممالک میں سیاسی تشدد کی گرفت مضبوط ہوئی ہے۔ اسی دوران دائیں بازو کی سیاست کے عروج کے ساتھ انسانی ہمدردی کے لیے فنڈنگ میں تیز کمی آئی ہے۔ گھریلو سیاسی دباؤ، عطیہ دہندگان کی بے رخی اور اسٹریٹجک مقابلہ آرائی نے کثیر فریقی وعدوں کو کمزور کر دیا ہے۔ اس پس منظر میں 2026 میں دنیا کو کن حالات کا سامنا ہو سکتا ہے، اس پر غور کیا جانا چاہیے۔ یقیناً یہاں پیش کیے گئے تنازعات مکمل نہیں ہیں اور ایسے کئی دیگر ٹکراؤ بھی ہوں گے، لیکن مجموعی طور پر یہ اندازہ لگانے کے لیے کافی ہیں کہ آنے والا وقت کیسا ہو سکتا ہے۔

Published: undefined

سوڈان میں شروع ہوئی حریف فوجی دھڑوں کے درمیان اقتدار کی جنگ دنیا کی سب سے سنگین انسانی ہمدردی کے بحران میں سے ایک بن گئی ہے۔ بیرونی طاقتوں نے اسے مزید بدتر بنا دیا ہے، جنہوں نے برسر پیکار فریقین کو ہتھیار، پیسہ اور سیاسی تحفظ فراہم کیا۔ اس طرح سوڈان پراکسی جنگ کا میدان بن گیا ہے۔

Published: undefined

ثالثی کی کوششیں بکھری ہوئی اور باہمی مسابقت میں رہی ہیں۔ پابندیاں محدود رہی ہیں اور انسانی ہمدردی کی امداد کو جغرافیائی سیاسی مفادات کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بڑے پیمانے پر قتل، نسلی کارروائیاں، جنسی تشدد، بڑھتا ہوا قحط اور لاکھوں لوگوں کی ہجرت دیکھنے کو مل رہی ہے۔ مقابلہ آرا بین الاقوامی طاقتوں نے بات چیت کی گنجائش کم کی ہے، جنگ کو طول دیا ہے اور سیاسی حل کے امکانات کو مزید دور دھکیل دیا ہے۔

Published: undefined

غزہ اور مغربی کنارے میں بمباری اور فضائی حملے بلاشبہ رک گئے ہوں، لیکن بلڈوزر اب بھی چل رہے ہیں اور تشدد بڑھ گیا ہے۔ اسرائیل جنگ بندی کی بے خوف خلاف ورزی کر رہا ہے، غزہ کے بڑے حصوں پر اپنا کنٹرول برقرار رکھے ہوئے ہے اور فلسطینیوں اور امداد کی آمد و رفت کو سختی سے کنٹرول کر رہا ہے۔ زیادہ تر علاقہ ملبے میں تبدیل ہو چکا ہے، نظامِ حکمرانی درہم برہم ہے اور خوراک کی کمی ہر جگہ ہے۔

Published: undefined

بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی کو معمول سمجھ لیا گیا ہے اور لوگوں کی تکلیف کو فوجی حکمت عملی کی ایک قابل قبول قیمت مانا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ڈونالڈ ٹرمپ انتظامیہ بین الاقوامی فورس کے لیے ایک قابل اعتماد اور سیاسی طور پر ممکنہ اتفاق رائے بنانے میں ناکام رہی ہے، جس کے باعث فوجیوں کے کردار میں رکاوٹ آ رہی ہے اور غزہ کسی بامعنی شہری تحفظ کے بغیر رہ گیا ہے۔ جنگ بندی کی خلاف ورزیوں، آبادکاروں کی توسیع اور سفارتی جمود کو ختم کیے بغیر، غزہ کو دانستہ طور پر تباہی میں بدلا جا رہا ہے۔

Published: undefined

ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو (ڈی آر سی) میں مقامی مسلح گروہوں، علاقائی طاقتوں اور پراکسی افواج کے درمیان مسلسل جاری تنازع نے عام لوگوں کو خطرناک رفتار سے بے گھر کیا ہے۔ یہ طویل ترین اور مہلک ترین تنازعات میں سے ایک ہے اور 1996 سے اب تک 60 لاکھ سے زیادہ جانیں لے چکا ہے۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں جس سے بھوک، بیماری اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے سبب انسانی ہنگامی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ مشرقی ڈی آر سی کی وسیع معدنی دولت (کوبالٹ، تانبا، سونا) تشدد کو ہوا دیتی ہے، کیونکہ مسلح گروہ اور غیر ملکی طاقتیں غیر قانونی کانکنی اور اسمگلنگ سے منافع کماتی ہیں، جس سے ایک ’متنازع معیشت‘ وجود میں آتی ہے جو لڑائی کو جاری رکھتی ہے۔

Published: undefined

وینزویلا اپنے معاشی بحران اور سیاسی جمود کے ساتھ 2026 میں داخل ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی اس پر ڈونالڈ ٹرمپ انتظامیہ کا بیرونی دباؤ بھی ہوگا، جو اقتدار کی تبدیلی کے لیے حالات کو بھڑکا رہی ہے۔ وینزویلا کے لاکھوں لوگ لاطینی امریکہ میں ہجرت کر چکے ہیں، بنیادی خدمات خستہ حال ہیں اور انسانی بحران شدید ہے۔ زبردستی اقتدار کی تبدیلی اس خطے کو مزید غیر مستحکم کر سکتی ہے، بے دخلی کی ایک بڑی لہر شروع ہو سکتی ہے اور پہلے سے ہی نازک اس نصف کرہ میں بحران گہرا ہو سکتا ہے۔

Published: undefined

پاکستان سیاسی عدم استحکام، معاشی کمزوری اور موسمیاتی بحران سے نبرد آزما ہے۔ اس کے سرحدی علاقوں میں مسلح حملے تیز ہو گئے ہیں اور سرحد پار دہشت گردی اور باغی گروہوں کو پناہ دینے کے باہمی الزامات کے درمیان افغانستان کے ساتھ اس کے تعلقات خراب ہو گئے ہیں۔ ہندوستان کے ساتھ کشیدگی تو پہلے سے ہی موجود ہے، پہلگام کے حالیہ اشتعال انگیز واقعہ اور اس کے بعد 4 روزہ جنگ نے بھی حالات خراب کیے ہیں۔ دونوں ممالک کے باہمی تنازعات حل طلب ہیں اور بات چیت کے لیے قائم نظاموں کے ٹوٹنے سے حالات مزید بگڑے ہیں۔ پاکستان میں عسکری اسٹیبلشمنٹ کے لیے یہ بیرونی ٹکراؤ ملک کی حکمرانی کی ناکامیوں اور سماجی قطبیت سے توجہ ہٹانے کا آسان ذریعہ ہو سکتے ہیں، لیکن عوام کے لیے حالات سنگین ہیں۔ نہ صرف داخلی عدم استحکام بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں کشیدگی بڑھنے کا خدشہ بھی ہے۔

Published: undefined

بحیرۂ احمر اور اس کے آس پاس کے سمندری راستے ایک اور سلگتا ہوا خطہ ہیں۔ سمندری راستوں کی عسکریت کاری، جہازوں پر حملے اور پراکسی ٹکراؤ نے دنیا کے سب سے اہم تجارتی راستوں میں سے ایک کو تنازعہ کے علاقہ میں بدل دیا ہے۔ یہاں کی بے چینی کا دنیا بھر میں خوراک کی قیمتوں، توانائی کی منڈیوں اور سپلائی چین پر اثر پڑتا ہے۔ خطرہ یہ ہے کہ کسی غلط اندازے سے یہاں کا کوئی محدود تنازعہ ایسے بڑے ٹکراؤ میں بدل سکتا ہے جس میں عالمی طاقتیں کود پڑیں۔

Published: undefined

عالمی سطح پر بے دخلی بذات خود ایک بحران ہے۔ آج جبراً بے گھر کیے گئے افراد کی تعداد دوسری عالمی جنگ کے بعد سب سے زیادہ ہے اور مسلسل بڑھ رہی ہے۔ تنازعات، جبر اور موسمیاتی آفات لاکھوں لوگوں کو سرحدوں کے پار دھکیل رہی ہیں، جبکہ پناہ کے نظام سخت ہوتے جا رہے ہیں اور سیاسی بیانیے کہیں زیادہ جارحانہ ہو رہے ہیں۔ مہاجرین کو اب متاثرین کے طور پر نہیں، بلکہ خطرات کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ 2026 میں بے دخلی سیاسی عدم استحکام کو بڑھا سکتی ہے، زینوفوبیا کو ہوا دے سکتی ہے اور میزبان معاشروں پر دباؤ ڈال سکتی ہے۔

Published: undefined

شدید موسمی واقعات اب غیر معمولی نہیں رہے۔ خشک سالی، سیلاب اور طوفان باقاعدگی سے ان ممالک کو تباہ کر رہے ہیں جو پہلے ہی تنازعہ یا ناقص حکمرانی کے باعث کمزور ہو چکے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی خطرہ بڑھانے والے ایک عامل کے طور پر کام کرتی ہے، جس سے غذائی عدم تحفظ بڑھتا ہے، ہجرت ہوتی ہے اور سیاسی بے چینی میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے باوجود موسمیاتی موافقت کے لیے فنڈز ناکافی ہیں اور ان کی دستیابی غیر مساوی ہے۔ اندازہ ہے کہ 2026 میں موسمیاتی واقعات سے مزید انسانی ہنگامی حالات پیدا ہوں گے۔

Published: undefined

انسانی ہمدردی کی امداد کے لیے دستیاب فنڈز کم ہو رہے ہیں۔ اقوام متحدہ 2026 میں اپنی عالمی امداد کو گھٹا کر تقریباً 23 ارب ڈالر کر دے گا، جو ریکارڈ سطح تک پہنچی ضروریات پوری کرنے کے لحاظ سے آدھا ہے۔ یہ کمی عطیہ دہندگان کی گھٹتی وابستگی کو ظاہر کرتی ہے، جس میں بڑے عطیہ دینے والے ممالک گھریلو سیاسی دباؤ اور بڑھتے ہوئے فوجی بجٹ کے باعث حمایت کم کر رہے ہیں۔

Published: undefined

چونکہ امدادی ایجنسیاں تمام تنازعہ زدہ علاقوں سے پیچھے ہٹ رہی ہیں، ایسے حالات میں بھوک اور بے دخلی کا سامنا کر رہے لاکھوں لوگ کسی مدد کے بغیر رہ جائیں گے۔ اپنے انسانی ہمدردی کے کارکنوں کو نشانہ بنائے جانے اور رسائی میں کمی کے باعث اقوامِ متحدہ اب یہ تسلیم کر رہا ہے کہ اس پر حد سے زیادہ بوجھ ہے۔ اس کے پاس پیسے کی کمی ہے اور اسے انتہائی ضرورت کے وقت جان بچانے والے مشن ترک کرنے پڑ رہے ہیں۔

Published: undefined

سب سے بڑا بحران کثیر فریقیت کا ٹوٹنا ہے۔ بین الاقوامی ادارے ویٹو سیاست اور قوم پرستانہ ایجنڈوں کے باعث تیزی سے مفلوج ہو رہے ہیں۔ قواعد کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جا رہی ہے اور سفارت کاری بے بس نظر آتی ہے۔

Published: undefined

اوپر بیان کردہ بحران ایک دوسرے کو تقویت دیتے ہیں۔ تنازعہ سے ہجرت ہوتی ہے، ہجرت سے سیاسی رد عمل پیدا ہوتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے عدم تحفظ بڑھتا ہے۔ امداد میں کٹوتی سے انسانی تکلیف میں اضافہ ہوتا ہے۔ جغرافیائی سیاسی رقابت اجتماعی رد عمل کو روکتی ہے۔ اتنا طے ہے کہ 2026 میں دنیا بھر میں سیاسی ارادے کی کمی نمایاں رہے گی۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined