سیاسی

انتخابی نتائج سے ماہرین بھی انگشت بدندان... نواب علی اختر

موجودہ وقت میں عوام کو اس قدر برین واش کردیا گیا ہے کہ وہ فرقہ پرستی سے آگے بڑھ کر کچھ بھی سوچنے کی حالت میں نہیں رہ گئے ہیں۔

جیت کے بعد بی جے پی کا جشن / یو این آئی
جیت کے بعد بی جے پی کا جشن / یو این آئی 

ملک کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کا شور وغوغا تھم گیا ہے اور کامیاب ہونے والی جماعتوں کے رہنما اب حکومت سازی میں مصروف ہوگئے ہیں۔ ممکن ہے کہ رواں ہفتہ انتخابی ریاستوں میں حکومتوں کی تشکیل عمل میں آجائے اور تقریباً دوماہ تک جمود کے حصار میں رہی ان ریاستوں میں ایک بار پھر معمول کی سرگرمیاں شروع ہوجائیں گی۔ مگر غور طلب بات یہ ہے کہ ایک طرف کامیاب ہونے والے رہنما جشن منا رہے ہیں تو کیا عوام بھی ان کی خوشی میں شامل ہوکر نئی حکومت کا استقبال کرنے کے لئے تیار ہیں؟ مہنگائی، بے روزگاری، نظم ونسق جیسے مسائل کے تصفیہ کے لیے ووٹ دینے والے لوگوں کو امید تھی کہ مستقبل میں کچھ نیا سامنے آئے گا مگر شاید پانچ سال اور وہی بنیادی مسائل کے لیے جدو جہد کرنا جاری رکھنا پڑے گا۔

Published: undefined

انتخابات کے بعد چار ریاستوں میں جہاں بی جے پی کا اقتدار تھا وہاں پارٹی نے بڑی آسانی سے اپنا اقتدار بچالیا ہے جبکہ پنجاب میں کانگریس پارٹی اپنا اقتدار بچانے میں کامیاب نہیں ہو پائی ہے اور وہاں عام آدمی پارٹی نے شاندار کامیابی حاصل کرتے ہوئے دہلی کے بعد دوسری ریاست میں اقتدار حاصل کرکے قومی پارٹی کا درجہ حاصل کرلیا ہے۔ اترپردیش، اترکھنڈ، گوا اور منی پور میں عوامی رائے اور سیاسی ماہرین کے تجزیات سے یہ تاثر مل رہا تھا کہ بی جے پی کو ان ریاستوں میں مشکل ہوگی۔ کم از کم اتراکھنڈ اور گوا میں بھگوا پارٹی کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے گا اور شاید یہاں کانگریس واپسی کرے گی۔ پنجاب میں یہ کہا جا رہا تھا کہ کانگریس کو عام آدمی پارٹی سے کانٹے کی ٹکر ہے اور کوئی بھی جماعت اقتدار کے جادوئی ہندسہ تک پہنچ سکتی ہے تاہم عام آدمی پارٹی نے وہاں دھماکے دار جیت درج کی ہے۔

Published: undefined

اترپردیش میں ساری جوڑ توڑ اور کوششوں کے باوجود سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھیلیش یادو بی جے پی کے جادو کو توڑنے میں کامیاب نہیں ہو پائے ہیں۔ انہوں نے چھوٹی چھوٹی پارٹیوں سے اتحاد کرتے ہوئے سماجی تانے بانے بننے کی کوشش کی تھی لیکن یہ کوشش بھی کامیاب نہیں ہوسکی۔ 300 یونٹ بجلی مفت، نوجوانوں کو روزگار، ترقیاتی اقدامات اور کئی وعدے کئے گئے تھے لیکن ان تمام وعدوں پر شدت پسندی کی سیاست کا غلبہ رہا۔ کورونا بحران کے وقت سے دیا جانے والا مفت راشن اور یوگی۔ مودی کی ہندوتوا کشش نے تمام مسائل کو پس پشت ڈال دیا۔ شدت پسندی کی سیاست کے سامنے نہ مہنگائی کا مسئلہ کوئی اثر کرسکا اور نہ پٹرول و ڈیزل کی قیمتیں عوام کے لیے کوئی مسئلہ ہے۔ بیروزگاری کی فکر اب نوجوانوں کو بھی لاحق نہیں رہ گئی ہے۔

Published: undefined

مذہب اور ذات پات کی سیاست کے لیے مشہور اترپردیش کے ووٹر شدت پسندی اور گودی میڈیا کے پروپیگنڈہ والی مہم کا اثر قبول کرچکے ہیں۔ یہی وہ صوبہ ہے جہاں سب سے زیادہ شدت پسندانہ واقعات ہونے کی وجہ سے عام لوگ اس بات کے لیے ہمہ وقت خوف زدہ رہتے تھے کہ کہیں اور کسی بھی وقت وہ بھی فرقہ پرستوں کے ذریعہ لگائی گئی آگ کی نذر نہ ہوجائیں۔ ان حالات میں ماہرین کو بھی ریاست کے عوام پر نئی تاریخ رقم کرنے کا یقین تھا لیکن ایک بار پھرعوامی مسائل کے سامنے شدت پسندی جیت گئی۔ عوامی مسائل پر شخصیت پرستی کو غلبہ ہوگیا ہے اور بی جے پی نے اترپردیش میں اپنا اقتدار واضح اکثریت کے ساتھ برقرار رکھا ہے۔ حالانکہ سماجوادی پارٹی کی نشستیں پہلے سے دوگنی سے زیادہ ہوگئی ہیں لیکن وہ اقتدار میں واپسی کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔

Published: undefined

پرینکا گاندھی کی قیادت میں ’لڑکی ہوں، لڑسکتی ہوں‘ کے ذریعہ کانگریس پارٹی خواتین میں زبردست جوش بھرنے میں کامیاب رہی مگر انہیں ووٹ میں بدلنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ پچھلے کچھ دنوں میں ریاست کی خواتین میں نئی توانائی محسوس کی جا رہی تھی اور بے روزگار نوجوان، مہنگائی سے پریشان عوام بڑی تعداد میں پارٹی کے ساتھ آرہے تھے باوجود اس کے کانگریس پارٹی کو ایک سیٹ پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔ ریاست کے انتخابی نتائج سیاسی ماہرین کے بھی گلے سے نہیں اتر رہے ہیں پھر بھی ہمیں اسے تسلیم کرنا پڑے گا کیونکہ یہی ہماری جمہوریت کی خوبی ہے۔ بظاہر بی جے پی کے حق میں نظر آرہی رائے عامہ کی اہم وجہ ’شدت پسندی‘ کا غلبہ ہی کہا جائے گا جس میں سلگتے مسائل پوری طرح نظر انداز ہو گئے ہیں۔

Published: undefined

اپوزیشن جماعتوں کے لیے یہ نتائج حوصلہ شکن کہے جاسکتے ہیں کیونکہ آئندہ عام انتخابات کے لیے اب دو سال کا وقت رہ گیا ہے اور پانچ ریاستوں کے نتائج سے اپوزیشن کے حوصلے پست اور بی جے پی کے حوصلے مزید بلند ہوگئے ہیں۔ اترپردیش کے نتائج کو عام انتخابات کا سیمی فائنل قرار دیا جا رہا تھا اور سیمی فائنل میں بی جے پی نے شاندار کامیابی حاصل کرتے ہوئے اپوزیشن کے عزائم کو عملا ناکام کر دیا ہے۔ اب اپوزیشن کو ایک بار پھر ازسرنو شروعات کرنی پڑے گی اور یہ سفر آسان نہیں ہوگا بلکہ مزید مشکل ہوگیا ہے۔ اب تمام جماعتیں اپنی اپنی شکست کی وجوہات کا محاسبہ کریں گی اور نت نئی وجوہات پیش کرتے ہوئے عوام میں اپنی تصویر بچانے کی کوشش کریں گی لیکن یہ طریقہ کار ہندوستان کی موجودہ سیاست میں کارگر ثابت ہونے والا نہیں ہے۔

Published: undefined

بی جے پی نے اچھی طرح عوام کی نبض سمجھ لی ہے اور اسی کے مطابق عوام کے درمیان اپنے پروپگنڈے کو منوانے کے لیے اس کے پاس میڈیا کی طاقت بھی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ میڈیا اپنی ذمہ داریوں کو غیر جابنداری سے نبھانے کی بجائے حکومت کے ایجنڈے کو عوام کے ذہنوں میں پیوست کرنے کی مہم میں مصروف ہے اور وہ بھی اپنے مقصد میں کامیاب ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے لیے اترپردیش اور دوسری ریاستوں کے نتائج لمحہ فکریہ ہیں اور انہیں اپنی حکمت عملی پر غور کرنا چاہئے۔ پنجاب میں عام آدمی پارٹی کی کامیابی بھی کانگریس کے لیے باعث تشویش قرار دی جاسکتی ہے۔ ملک کی سب پرانی پارٹی کانگریس کے لیے عوام کی نبض کو سمجھنے کے لیے اب ازسرنو شروعات کرنی چاہئے۔ ایک طے شدہ فارمیٹ کے تحت کام کرنا اب کارگر نہیں ہوسکتا۔

Published: undefined

حالیہ انتخابات میں مہنگائی کا مسئلہ ہو یا بیروزگاری کا مسئلہ یا پھر خواتین کی حفاظت ہو یا ملک کی ترقی جیسے تمام مسائل ایک طرح سے شدت پسندی کے سامنے دم توڑ گئے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایک بار پھر ملک کے عوام کو ان مسائل پر واپس لانے کی کوششیں جاری رہیں گی یا نہیں۔ کیونکہ ماہرین بھی موجودہ حالات سے انگشت بدندان ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ ایک شخص ووٹ دینے کے بعد سامنے ہی موجود دکان سے اپنی ضرورت کا سامان خریدنے کے بعد کہتا ہے کہ ’بہت مہنگائی ہے‘ اس پر جب پاس میں کھڑا شحص پوچھتا ہے کہ بھائی ووٹ کس کو دیا تو وہ شخص برجستہ کہتا ہے کہ بی جے پی کو دیا ہے، وجہ پوچھنے پر وہ کہتا ہے کہ ہندوؤں کی رکھشا کرنے والی کوئی پارٹی ہے تو وہ بی جے پی ہی ہے۔

Published: undefined

اب اندازہ لگایئے کہ عوام کے ذہنوں میں شدت پسندی کا زہر کس حدتک اتر چکا ہے کہ مہنگائی سے پریشان ہونے کے بعد بھی حکومت کرنے والی پارٹی کی حمایت کرنے پر فخر کر رہا ہے۔ موجودہ حالات میں شدت پسندانہ سوچ کے آگے عوامی مسائل نظر انداز کر دیئے گئے ہیں۔ فرقہ پرستوں نے اسی سوچ کو اپنی کامیابی کا زینہ بنایا اور سیاسی میدان میں ایک کے بعد ایک ’میچ‘ جیتنے کا سلسلہ دراز کرتے ہوئے جمہوریت کی روح کو مجروح کرنا جاری رکھا۔ موجودہ وقت میں عوامی ذہنوں کو اس قدر برین واش کر دیا گیا ہے کہ وہ فرقہ پرستی سے آگے بڑھ کر کچھ بھی سوچنے کی حالت میں نہیں رہ گئے ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری منظور ہے مگر سیکولر اقدار جس میں ہر شہری کو بلا خوف و خطر زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے، شدت پسندوں کو یہ کسی بھی حال میں گوارا نہیں ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined