انتخابی ہار کے بعد اکھلیش یادو کی راہ میں حائل مشکلات کا پہاڑ، کس طرح مقابلہ کریں گے؟

آنے والے مہینوں میں اکھلیش یادو کے لیے سب سے بڑا چیلنج اپنی پارٹی کو متحد رکھنا ہوگا، پانچ سال ایک طویل وقت ہے اور بہت سے نو منتخب ارکان اسمبلی اس عرصے میں جدوجہد کرنے میں دلچسپی نہیں دکھائیں گے

اکھلیش یادو، تصویر آئی اے این ایس
اکھلیش یادو، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے صدر اکھلیش یادو نے ایک سفر مکمل کر لیا اور ان کا دوسرا سفر شروع ہو چکا ہے۔ حال ہی میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں ان کی پارٹی نے سابقہ 2017 کے انتخابات کے مقابلہ دوگنی زیادہ سیٹوں پر جیت حاصل کی ہے اور ووٹ شیئر بھی ڈیڑھ گنا بڑھ گیا ہے، لیکن 48 سالہ لیڈر اکھلیش یادو کی راہ میں جو مشکلات تھیں ان میں بھی کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔

آئندہ مہینوں میں اکھلیش کے لیے سب سے بڑا چیلنج اپنی پارٹی کو یکجا رکھنا ہوگا۔ پانچ سال کا وقت کافی طویل ہوتا ہے اور بہت سے نو منتخب ارکان اسمبلی جدوجہد کے راستہ پر نہیں چلنا چاہیں گے۔ قانون ساز پارٹی کو متحد رکھنے کے علاوہ، اکھلیش کو اپنی پارٹی سے ہجرت کو روکنے کے لئے بھی زیادہ مشقت کرنا ہوگی۔ سماجوادی پارٹی دل بدلووں (ایسے لیڈران سے بھری پڑی ہے جو اپنی وفاداری تبدیل کر کے سماجوادی پارٹی میں آئے ہیں) اور اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ ایسے عناصر پھر سے واپس نہیں چلے جائیں گے۔


دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دل بدلو ایس پی کی ناقص کارکردگی کی ایک بڑی وجہ ہیں۔ جب ٹکٹ کی تقسیم کی بات آئی تو اکھلیش یادو نے اپنے وفادار رہنماؤں پر 'بیرونی لوگوں' کو ترجیح دی اور اس سے ان کے کارکن ناراض ہوگئے۔ بی جے پی سے آنے والے سوامی پرساد موریہ اور دھرم سنگھ سینی کی شکست اس کی ایک مثال ہے۔

اکھلیش کو اب اپنی پارٹی کے کارکنوں کی مسلسل حوصلہ افزائی کرنی ہوگی اور انہیں یقین دلانا ہوگا کہ ریاستی سیاست میں پارٹی کا مستقبل روشن ہے۔ ایس پی سربراہ کو اپنے او بی سی ووٹ بینک کو برقرار رکھتے ہوئے اپنا ووٹ بیس بڑھانے کے چیلنج کا بھی سامنا ہے۔


الیکشن کے درمیان اکھلیش نے پرتاپ گڑھ میں کہہ دیا تھا ’’راجا بھیا کون!‘‘ جبکہ راجا بھیا خطہ اودھ کے کم از کم 6 اضلاع میں ٹھاکر برادری کے لیے ایک علامت کی طرح ہیں۔ اکھلیش کے غیر ضروری تبصرہ نے ٹھاکروں کو ناراض کر دیا اور انہوں نے ایس پی کو ووٹ نہیں دیا۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی کے اروند سنگھ گوپ جیسے ٹھاکر لیڈران کو ہار کا سامنا کرنا پڑا۔

راجا بھیا اکھلیش کے والد ملائم سنگھ کو 2003 میں اپنی حکومت کے لیے اکثریت حاصل کرنے میں مدد کر چکے ہیں اور ملائم اور اکھلیش حکومتوں میں وزیر کے طور پر کام کر چکے ہیں۔ اکھلیش نے ایک اور مشہور ٹھاکر لیڈر دھننجے سنگھ کو بھی نشانہ بنایا، جو جونپور کے ملہانی سے الیکشن لڑ رہے تھے۔ اگرچہ دھننجے بھی الیکشن ہار گئے لیکن اس نے ایس پی کے خلاف ٹھاکروں کے غصے کو مزید بھڑکا دیا۔


اگر ایس پی اپنی بنیاد کو مضبوط کرنا چاہتی ہے، تو وہ او بی سی طبقوں کے انتخاب تک محدود رہنے اور اعلیٰ ذاتوں کو مکمل طور پر نظر انداز کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ایک سیاسی رہنما کے طور پر اکھلیش اپنے مزاج اور ضبط کی کمی کے لیے جانے جاتے ہیں جو انتخابی مہم کے دوران نظر بھی آتا ہے۔

انتخابی مہم کے دوران قنوج میں ان کا 'اے پولیس' والا تبصرہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا اور ان پر شدید تنقید کی گئی۔ وہ عوامی طور پر سیاستدانوں پر طنز کرنے کے لئے بھی جانے جاتے ہیں، جو بظاہر کوئی بہتر عادت نہیں ہے۔ ایک اور عنصر جو ان کی بربادی ثابت ہو سکتی ہے وہ ہے پارٹی کارکنوں، سیاست دانوں اور صحافیوں کی ان تک رسائی نہ ہونا۔


پارٹی کے ایک سینئر رکن اسمبلی نے کہا کہ وہ آپ سے تب ہی ملیں گے جب وہ چاہیں گے۔ اگر آپ کے پاس کچھ معلومات ہیں اور آپ انہیں دینا چاہتے ہیں، تو ملاقات ممکن نہیں ہو سکتی۔ اس لحاظ سے ان کا رویہ مایاوتی کی طرح متکبر ہوتا جا رہا ہے۔ کوئی ایسا چینل نہیں ہے جو پارٹی اور دیگر مقامات پر زمینی سطح پر کیا ہو رہا ہے اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں ان کی مدد کر سکے۔

پارٹی لیڈروں کو یاد ہے کہ ملائم سنگھ یادو اس کے برعکس پارٹی کا کوئی ضروری مسئلہ ہونے پر کارکنوں سے دیر رات تک آسانی سے مل جاتے تھے۔ بلیا کے ایک سابق رکن اسمبلی نے کہا کہ ان کے ملازمین کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ ارکان اسمبلی کو کبھی واپس جانے کو نہ کہیں۔


اکھلیش کے سامنے ایک اور بڑا چیلنج یہ ہے کہ پانچ سال تک اقتدار سے دور رہنے کے باوجود وہ اپنی پارٹی کے اندر نئی قیادت تیار کرنے میں ناکام رہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ بغیر کسی دوسرے تشہیر کار کے ’ون مین آرمی‘ کی طرح کام کر رہے ہیں، اس کے برعکس بی جے پی کے پاس وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ سے لے کر مرکزی وزرا، اراکین پارلیمنٹ اور ریاستی وزرا تک تشہیرکاروں کی پوری فوج موجود ہے۔

اس کے علاوہ ایس پی صدر کو کچھ معتبر لیڈران درکار ہیں اور انہیں اپنے موجودہ مشیران کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، جن میں ناتجربہ کار لیڈران بھی شامل ہیں۔ اکھلیش یادو پرانے لیڈروں کو مرکزی اسٹیج کا شریک بنانے کو تیار نہیں ہیں۔ اگرچہ انہوں نے الیکشن کے موقع پر اپنے چچا شیو پال یادو کے ساتھ معاہدہ کر لیا لیکن انہوں نے اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ شیو پال کو وہ توجہ حاصل نہ ہو سکے جس کے وہ حقدار ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔