سیاسی

ہوشیار جمہوریت قرنطینہ میں ہے... سہیل انجم

جب مودی مودی حکومت کی دوسری مدت کار میں امت شاہ کو وزیر داخلہ بنایا گیا اور وہ ایک طرح سے حکومت میں دوسری پوزیشن کے مالک بن گئے تو یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ اب یہ حکومت ہندوتوا کے ایجنڈے پر آگے بڑھے گی

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

مرکز میں مودی حکومت کے دوسرے دور یعنی مودی 2.0 کا ایک سال مکمل ہو گیا۔ یہ ایک سال بڑا ہنگامہ خیز رہا۔ پہلے دور میں جہاں مودی حکومت کی توجہ ترقیاتی سرگرمیوں پر رہی حالانکہ اس میں وہ کسی بھی طرح کامیاب نہیں ہو سکی تھی، وہیں اس ایک سال میں اس کی پوری کی پوری توجہ اپنے ہندوتوا کے ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے پر رہی۔ اس کے لیے اس نے جہاں کئی متنازعہ فیصلے کیے وہیں آئینی و جمہوری اداروں کو کمزور کرنے کی مزید کوشش کی۔ اس ایک سال میں حکومت کے خلاف بولنے یا اس کے غلط فیصلوں پر آواز بلند کرنے والوں کی زبانیں بند کرنے کی جس طرح کوششیں ہوئی ہیں وہ جمہوری طرز حکومت میں پسندیدہ نہیں ہیں۔ بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ کوششیں جمہوری اصولوں کے منافی ہیں۔

Published: undefined

جب ارون جیٹلی زیادہ بیمار ہو گئے اور وہ حکومت کے فیصلوں پر اثرانداز ہونے کی پوزیشن میں نہیں رہے تو اسی وقت سے حکومت کے رویے میں تبدیلی آنے لگی تھی اور جب دوسری مدت میں امت شاہ کو وزیر داخلہ بنایا گیا اور وہ ایک طرح سے حکومت میں دوسری پوزیشن کے مالک بن گئے تو یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ اب یہ حکومت ہندوتوا کے ایجنڈے پر آگے بڑھے گی اور اس کی راہ میں جو بھی رکاوٹیں آئیں گی ان کو بزور طاقت دور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

Published: undefined

لہٰذا اس حکومت نے سب سے پہلے طلاق ثلاثہ پر کلہاڑی چلائی۔ اس نے بیک وقت تین طلاق دینے والے مسلمانوں کو تین سال کی جیل کا انتظام کیا۔ حالانکہ یہی کام اگر کوئی ہندو کرتا ہے تو اس کے خلاف ایسا کوئی قانون نہیں ہے۔ اس کا مقصد صرف اور صرف مسلم شوہروں کو جیل میں ڈالنا ہے تاکہ وہ مسلمانوں کے خلاف اقدامات اٹھا کر اپنے اس ووٹ بینک کو خوش کر سکے جو مسلمانوں کے خلاف کسی بھی کارروائی کو بڑی پسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے اور جو ہندوستان کو ہندو راشٹر میں تبدیل ہوتے دیکھنا چاہتا ہے۔

Published: undefined

اس کے بعد حکومت نے ایک غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے جموں و کشمیر کو خصوصی اختیار تفویض کرنے والی دفعہ 370 کا خاتمہ کر دیا اور اسے مرکز کے زیر انتظام دو خطوں میں تبدیل کر دیا۔ اس فیصلے کے خلاف کوئی آواز بلند نہ کر سکے اس کے لیے کشمیر میں انتہائی سخت قسم کا لاک ڈاون نافذ کیا گیا۔ لوگوں کی آمد و رفت اور یکجا ہونے پر انتہائی سخت پابندیاں نافذ کر دی گئیں اور تجزیہ کاروں کی زبان میں کہیں تو کشمیر کو تالے میں بند کر دیا گیا۔

Published: undefined

ہزاروں افراد کو جن میں سیاست داں بھی شامل ہیں جیلوں میں ٹھونس دیا گیا یا انھیں خانہ قید کر لیا گیا۔ تین سابق وزرائے اعلی فاروق عبد اللہ، عمر عبد اللہ اور محبوبہ مفتی کو ان کے گھروں میں نظربند کر دیا گیا۔ محبوبہ مفتی تو اب بھی نظربند ہیں۔ البتہ دونوں باپ بیٹوں کو نظربندی سے رہائی دے دی گئی ہے۔ لیکن اب بھی بڑی تعداد میں لوگ جیلوں میں بند ہیں۔ وہاں کی معیشت بری طرح چوپٹ ہو گئی ہے۔ کاروبار برباد ہو گئے ہیں۔ سیاحت ختم ہو گئی ہے۔ اور ادھر جب سے کروناوائرس کی وجہ سے ملک میں لاک ڈاون نافذ کیا گیا تو کہا جا رہا ہے کہ کشمیر لاک ڈاون کے اندر لاک ڈاون میں ہے۔ کشمیر میں جو کچھ کیا گیا اس سے ہندوستان کے ہندووں کا ایک بہت بڑا طبقہ بہت زیادہ خوش ہوا اور اس نے امت شاہ اور نریندر مودی کا قصیدہ پڑھنا شروع کر دیا۔ کشمیر میں اب بھی حالات بہتر نہیں ہیں۔ اختلافی آوازوں کو کچل دیا جاتا ہے۔

Published: undefined

بی جے پی کے ایجنڈے میں رام مندر کا معاملہ سرفہرست تھا۔ سپریم کورٹ نے اس بارے میں بی جے پی کی بڑی مدد کی۔ اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے ایسے حالات بنائے کہ بات تو بابری مسجد کی کی جائے مگر فیصلہ رام مندر کے حق میں دے دیا جائے۔ اور وہی ہوا۔ رام مندر کے حق میں فیصلہ دے دیا گیا۔ اب وہاں ایک عظیم الشان مندر کی تعمیر کا کام شروع ہو گیا ہے۔ حالانکہ یہ فیصلہ عدالت کا ہے لیکن اس نے حکومت کو بہت بڑی راحت دی اور وہ اپنے اس وعدے کو پورا کرنے میں کامیاب رہی کہ وہ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کرے گی۔ یہ فیصلہ بہت مشکوک رہا۔ اپنے عہدے سے سبکدوشی کے بعد ہی بی جے پی کی جانب سے رنجن گوگوئی کو راجیہ سبھا کا رکن نامزد کر دیا جانا بھی شکوک و شبہات میں اضافہ کرتا ہے اور اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ عدالت حکومت کے زیر اثر رہی ہے۔ چونکہ یہ معاملہ بھی مسلمانوں ہی سے متعلق تھا اس لیے اس سے بھی ہندووں کا ایک بہت بڑا طبقہ بہت زیادہ خوش ہوا۔

Published: undefined

مسلمانوں کو زک پہنچانے کے لیے ایک اور قدم اٹھایا گیا یعنی شہریت کے قانون میں ترمیم کر دی گئی۔ پہلے کسی دوسرے ملک سے کوئی بھی ہندوستان آئے اور یہاں کی شہریت طلب کرے تو اس پر غور کیا جاتا تھا۔ لیکن اب جو نیا قانون منظور کیا گیا اس میں سے مسلمانوں کو نکال باہر کیا گیا۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے غیر مسلموں کو شہریت دینے کا انتظام کیا گیا۔ حالانکہ ہندوستان کا آئین مذہب کی بنیاد پر تفریق کرنے کے خلاف ہے وہ اس کی اجازت نہیں دیتا۔ لیکن ایک قانون بنا کر آئین کے خلاف اقدامات اٹھائے گئے۔ گویا قانون کے ذریعے آئین کا مذاق اڑایا گیا۔

Published: undefined

اس قانون کے خلاف پورے ملک میں زبردست احتجاج ہوا جس میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں سیکولر ہندووں نے بھی شرکت کی۔ مسلمان تو خاص طور پر اٹھ کھڑا ہوا اور ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ اب مسلمانوں نے عزت کے ساتھ جینے کی قسم کھا رکھی ہے۔ اس سلسلے میں شاہین باغ میں چلنے والا سو دنوں تک کا دھرنا اس قانون کے خلاف احتجاج کی ایک زندہ علامت بن گیا تھا۔ حکومت نے بہت کوشش کی تھی کہ اس دھرنے کو ختم کرا دیا جائے اور کچھ دوسرے لوگوں نے بھی کوشش کی۔ یہاں تک کہ فائرنگ بھی کروائی گئی لیکن ساری کوششیں ناکام ثابت ہوئی تھیں۔ البتہ کرونا وائرس کی وجہ سے جب پورے ملک میں لاک ڈاون نافذ کیا گیا تو شاہین باغ سمیت تمام مقامات کے دھرنے ختم ہو گئے۔

Published: undefined

حکومت نے ایک انتہائی سخت قانون یو اے پی اے میں ترمیم کرکے اسے ایسا بنا دیا کہ کسی انفرادی شخص کو بھی دہشت گرد کہا جا سکتا ہے اور اس کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔ سی اے اے مخالف دھرنوں کو ناکام بنانے کے لیے دہلی میں فسادات کرائے گئے جن میں 53 افراد کی جانیں ضائع ہوئیں اور ان میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ بی جے پی کے کئی رہنماؤں نے انتہائی اشتعال انگیزی کی اور مخالفت کرنے والوں کو غدار کہا اور انھیں گولی مارنے کی باتیں کیں۔ فسادات کے بعد مسلمانوں ہی کی گرفتاری بھی ہو رہی ہے۔

Published: undefined

جو لوگ سی اے اے کے خلاف تحریک میں پیش پیش رہے ہیں اب ان کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے اور ان پر یو اے پی اے لگایا جا رہا ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ کو خاص طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کئی طلبہ و طالبات کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے۔ دہلی پولیس لاک ڈاون کی آڑ میں ایسا کر رہی ہے۔

Published: undefined

اس طرح اگر ہم دیکھیں تو اس ایک سال کے دوران ایسے تمام اقدامات اٹھائے گئے جو مسلمانوں کے خلاف رہے ہیں۔ اس کا سیدھا سا مقصد یہی نظر آتا ہے کہ ہندوستان کو ہندو راشٹر میں تبدیل کر دیا جائے۔ اختلافی آوازوں کو بری طرح کچلا جا رہا ہے۔ حالانکہ جمہوریت میں اختلافی آوازوں کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ سپریم کورٹ بھی کہہ چکا ہے کہ اختلاف رائے جمہوریت کے لیے ضروری ہے۔ لیکن حکومت کسی بھی قسم کے اختلاف کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

Published: undefined

لہٰذا مذکورہ مثالوں کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ ہندوستان میں جمہوریت قرنطینہ میں ہے۔ دعا کریں کہ وہ جلد اس سے باہر آئے اور ملک میں جمہوریت کو جو نقصان پہنچ رہا ہے اس کا ازالہ ہو سکے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined