
عدیل زیدی / اے آئی سے بہتر کی گئی تصویر
اردو ادب کی وسیع و عریض دنیا میں کچھ نام ایسے ہیں جو نہ صرف اپنی تخلیقات کی وجہ سے تاباں ہیں بلکہ دوسروں کے ادھورے خوابوں کو بھی تعبیر بخشنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ عدیل زیدی انہی نایاب ہستیوں میں شامل ہیں۔ شاعر، مصنف، مرتب، محقق اور ادبی یو ٹیوبر تو وہ ہیں ہی، مگر ان کا سب سے عظیم کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اردو کے نابغۂ روزگار قلمکاروں کے غیر مطبوعہ شاہکاروں کوزیور طباعت سے آراستہ کر کے اردو دنیا تک پہنچایا۔ جوش ملیح آبادی، جون ایلیا اور عبید اللہ علیم جیسے اساطیری شاعروں کی وہ تخلیقات جو ان کی زندگی میں عوام کی نگاہوں سے اوجھل رہ گئی تھیں، عدیل زیدی نے انہیں اردو دنیا کے حوالے کر کے ادب کی ایک عظیم خدمت انجام دی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ عدیل زیدی اگر شاعر ،مصنف، محقق اور ادبی یو ٹیوبر کے طور پر مشہور نہ بھی ہوتے تو صرف جوش کی ’محمل و جرس‘ اور ’فکر و ذکر‘ کو مرتب کر کے انہوں نے اردو ادب کی تاریخ میں سنہری حروف میں اپنا نام درج کر لیا ہے، تو یہ مبالغہ نہ ہوگا۔ عدیل زیدی کے کارناموں کا تفصیل سے ذکر کرنے سے پہلے انکا خاندانی پس منظر جان لینا بھی ضروری ہے۔
Published: undefined
عدیل زیدی کی جڑیں ادب اور علم کی زر خیزمٹی سے گندھی ہوئی ہیں۔ وہ 6 جولائی 1958 کو پاکستان کے صوبۂ سندھ کے ضلع سکھر میں پیدا ہوئے، مگر ان کا آبائی وطن ہندستان کے اتر پردیش کے ضلع بجنور کا قصبہ مامن سادات (عرف میمن سادات) ہے۔ ان کے والد پروفیسر سید اختر رضا زیدی ایک بلند پایہ ماہرِ تعلیم، تاریخ دان، مصنف اور رثائی شاعر تھے۔وہ امروہا کے آئی ایم کالج کے دسویں درجے میں معروف فلمساز کمال امروہوی کے کلاس فیلو تھے۔تقسیم سے پہلے ہی وہ پاکستان چلے گئے تھے۔ جہاں وہ محکمۂ تعلیم سے وابستہ ہو گئے ۔ ان کی کتابیں ’جیومیٹری اور ’History of Civilization‘، کراچی ایجوکیشن بورڈ کے نصاب میں شامل ہیں۔دیگر تصانیف میں ’بیاضِ اختر‘ (نوحے، سلام اور مراثی)، ’خلافت کا عروج و زوال‘ کلیم کربلا ’اسلام اور علی‘ شامل ہیں۔ تقسیم کے واقعات پر مسد س کی شکل میں ان کی نظم ’پھول اور کانٹے‘ کو ان کےفرزند عدیل زیدی نے ہی مرتب کر کے شائع کیا۔ اختر رضا زیدی رثائی ادب میں منفرد مقام رکھتے تھے اور ان کے نوحے جغرافیائی حدود سے ماورا مقبولیت پا چکے ہیں۔ ۔ اختر رضا کی قلمی وراثت ان کےچار میں سے تین بیٹوں،عروج زیدی، جاوید زیدی اور عدیل زیدی تک منتقل ہوئی۔عروج زیدی کی غزلوں اور منقبتی شاعری کے مجموعے 'زر داغ ہائےدل' اور 'بندگی بوتراب '،جاوید زیدی کا رثائی مجموعہ ’موسمِ غمِ جاوید‘شائع ہو چکا ہے۔
Published: undefined
1977میں عدیل زیدی امریکہ ہجرت کر گئے جہاں وہ تاحال مقیم ہیں۔ پیشہ ورانہ طور پر آٹوموٹو/انڈسٹریل انجینئر ہیں اور Bullseye Engagement نامی کمپنی کے بانی و سی ای او ہیں۔ مگر ان کا اصل جنون ادب ہے۔ وہ قلمکاروں کے اس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنی تخلیقات سے پہلے دوسروں کے ادبی سرمائے کو محفوظ کرنے کی فکر میں رہتا ہے۔ ادبی سرقہ کے اس دور میں کسی شاعر کے ورثاء سے اس کی نگارشات حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں، مگر عدیل زیدی جوش کی ڈائریاں حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ نتیجتاً جوش کا نثری شاہکار ’فکر و ذکر‘اور آخری شعری مجموعہ ’محمل و جرس‘ منظرِ عام پر آ سکا۔ ’فکر و ذکر‘ جوش کی ایسی سحر انگیز تحریروں کا مجموعہ ہے جس کے سامنے ان کی مشہورِ زمانہ ’یادوں کی بارات‘ بھی ماند پڑ جاتی ہے۔ اسی طرح عبید اللہ علیم کا آخری مجموعہ ’اک زمانہ خوابوں کا‘ اور جون ایلیا کا آخری شعری مجموعہ ’کیوں‘ بھی عدیل زیدی کی کاوشوں سے ہی اردو قارئین تک پہنچا۔ یہ اعزاز عدیل کے سوا شاید ہی کسی اور کو نصیب ہو کہ تین عظیم شاعروں کے آخری مجموعے انہی کے ہاتھوں شائع ہوئے۔عدیل زیدی نے جوش اور جون ایلیا کی زندگیوں کو تصویروں کی زبانی بھی پیش کیا، جو ان کی تخلیقی جبلت کی عکاسی کرتا ہے۔
Published: undefined
عدیل زیدی کی اپنی شاعری میں ہجرت کا کرب، مادر گیتی کا درد، روایات کی پامالی اور غمِ کائنات غالب ہے۔ عشقیہ مضامین برائے نام ہیں اور جہاں ہیں بھی تومتانت اور شائستگی کا نمونہ ہیں۔ ان کے شعری مجموعے ’چلتے چلتے‘’کہاں آ گئے ہم‘’اذانِ مجلس‘اور ’قرضِ جاں‘شائع ہو چکے ہیں۔ ’قرضِ جاں‘ کے حوالے سے معروف ادیبوں کے تاثرات’کتنے منظر‘ کی شکل میں موجود ہیں۔ جہاں تک عدیل زیدی کے شعری فن و کمالات کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں ریختہ سے منسلک ڈاکڑ سالم سلیم کا کہنا ہیکہ ''انکا شعری محاورہ بھی ایک الگ ہی کیفیت کا غماز ہے کہ انکی لسانی تشکیل روایت کی گہری جڑوں میں پوشیدہ ہے۔ زبان کا یہ آموختہ انہوں نے شعر و ادب کی بڑی شخصیتوں کے سامنے یاد کیا ہے۔''
ادیب و نقاد حقانی القاسمی کی رائے میں'' عدیل زیدی کے تجربات و مشاہدات کا منطقہ بہت وسیع ہے۔ اورانکی آفاقی بصیرت اور مطالعہ کائنات کا رقبہ بھی وسیع ہے۔ مشرق و مغرب کے تہذیبی، معاشرتی، لسانی تنوعات اور تضادات سے بھی انکی پوری آگہی ہے۔ اسی لئے عدیل زیدی کے یہاں کئی سطحوں پر فکری تنوع اور تجرباتی تازگی کا بھی احساس ہوتا ہے۔ساری دنیا کے شب و روز واقعات و واردات سے انکی شاعری کا رشتہ ہے۔ عدیل زیدی کے یہاں خیال کی ندرت اور اظہار کی جدت بھی ہے۔''
Published: undefined
جیسے سورج غروب ہوتا ہے
پھیل کر یوں سمٹ رہی ہے حیات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھوئی پہچان اور ملال نہ تھا
اس سے بڑھ کر کوئی ذوال نہ تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیسے کوئی عزیز روایات چھوڑ دے
کچھ کھیل ہے کہ کہنہ روایات چھوڑ دے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھٹی میں جو تھے حل وہ خیالات چھوڑ دے
ماں کا مزاج باپ کی عادات چھوڑ دے۔
۔۔۔۔۔
جب اپنی سرزمین نے مجھ کو نہ دی پناہ
انجان وادیوں میں اترنا پڑا مجھے
۔۔۔۔۔
اپنے رسم و رواج کھو بیٹھے
باقی اب خاندان میں کیا ہے
۔۔۔۔۔
Published: undefined
ان کی نعتیہ اور منقبتی شاعری کا مجموعہ 'اذان مجلس' کی صورت میں عاشقان محمد و آل محمد کے دلوں کو برماتا ہے۔انکی مدحیہ شاعری عشق محمد و آل محمد سے عبارت ہے۔انکا مدحیہ کلام عشق آل رسول سے سرشار اور غم آل رسول میں نوحہ کناں ہے۔پنجتن سے الفت انکی رگ و پے میں موجزن ہے۔
از ابتدا زباں پہ ہے حق یا علی مدد
لایا ہے ساتھ دل کا ورق یا علی مدد
میرا لہو نہ بھولےگا احسان یہ عدیل
ماں کی عطا ہے پہلا سبق یاعلی مدد
۔۔۔۔۔
حب علی غلو ہے تو شامل کریں جناب
ایسا ہر اک گناہ ہمارے حساب میں
۔۔۔۔۔
شب تاریک ہو، مشکل ہو، دعا یاد نہ ہو
یا علی کہتے رہو فصل سحر ہونے تک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صاحب نہج البلاغہ کی محبت ہے نہاں
کتنا پاکیزہ یہ میرے قلب کا جذ دان ہے
۔۔۔۔۔
صبر کی کربلا میں پھول کھلے
جبر کی کربلا میں آگ لگی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کربلا جاگے ہوئے فتنے سلا دیتی ہے
کربلا سوئے ہوئے حر کو جگا دیتی ہے۔
۔۔
راہ ایمانی پہ چلنے مجلسوں میں آئیے
یوں اندھیروں سے نکلنے مجلسوں میں آئیے
کیا عجب ہے جنتی بن جائیں ہم مانند حر
اپنی تقدیریں بدلنے مجلسوں میں آئیے
Published: undefined
2020 کے کووِڈ لاک ڈاؤن میں دنیا تعطل کا شکار تھی لیکن عدیل زیدی نے اس تعطل کو الگ نوعیت کے ذریعے شعر و ادب کی خد مت کے لئے استعمال کیا۔ عدیل زیدی نے ’زیدی چینل‘ کے نام سے یو ٹیوب چینل شروع کیا۔ اس چینل کے وسیلے سے اب تک وہ سیکڑوں اردوقلمکاروں سے انکی زندگی کے نشیب و فراز،معاشقوں، تخلیقات اور علمی میلانات و رجحانات سےاردو دنیا کو واقف کرا چکے ہیں۔۔ یہ انٹرویوز اردو ادب کے ریسرچ اسکالرز کے لیے نادرِ ذخیرہ ہیں۔ ہیوسٹن میں انکی رہائش گاہ ’ادب کدہ‘ بن چکی ہے جہاں شعرو سخن کی مجلسیں سجتی ہیں ۔ان میں زوم کے ذریعے دور دراز کے ادیب بھی شریک ہوتے ہیں۔
عدیل زیدی کے ذریعے مرتب اور شائع جوش کا نثری شاہکار 'فکر و ذکر' جوش کی زندگی کے تجربات و مشاہدات کا نچوڑ ہے جسے انہوں نےمضامین اور مختصر جملوں میں سمیٹ دیا ہے۔ جوش کی تحریر کے کچھ نمونے پڑھئے اور زبان و بیان کا لطف اٹھائیے۔
''جب کوئی شخص بولتا ہے تو اپنے دماغ کا شجرۂ نسب کھولتا ہے'''۔
'' بدبخت انسان کروڑوں من آنسو بہاتا اور چھٹانک بھر مسکراتا ہے''۔
''صد حیف وہ انسان جو سفینہ کائنات کا نا خدا ہے پوتڑوں پر پڑا انگوٹھا چوس رہا ہے۔''
''قرب محبوب جب قرب دوام میں ڈھل جاتا ہے عشق کا جنازہ نکل جاتا ہے۔''
'' یہ علم کی معراج ہے وہ ہم کو ہمارے جہل سے اگاہ کردے۔''
جوش کے آخری شعری مجموعے'محمل و جرس ' کے کچھ شعری نوادرات دیکھئے۔
اے تائب سجدہ ہائے خوباں ۔۔۔۔آداب
اے باغی سرکار نگاراں ۔۔۔۔ آداب
وہ عقل کہاں ہے جس پہ مغرور تھے آپ
میں عشق ہوں ۔۔۔ شبیر حسن خاں ۔۔ آداب
۔۔۔۔
دل کا طوفاں دماغ تک پہنچا
گھپ اندھیرا چراغ تک پہنچا
۔۔۔
پیغمبریٔ عصر کے اعلان کے لیے
فارانِ دل پہ جوش چڑھایا گیا ہوں میں
Published: undefined
۔۔۔
یخ بستہ خون سرد سے تا لو نکل پڑے
مانند منجلیق گھمایا گیا ہوں میں
۔۔۔۔
کس کو آتی ہے مسیحائی کسے آواز دوں
بول اے خونخوار تنہائی کسے آواز دوں
۔۔۔۔۔
اف خموشی کی یہ آہیں دل کو برماتی ہوئی
اف یہ سناٹے کی شہنائی کسے آواز دوں
۔۔۔۔
جون ایلیا کے آخری شعری مجموعے 'کیوں' کو منظر عام پر لاکر عدیل زیدی نے جون کے چاہنےوالوں پر احسان کیا ہے۔
کچھ بھی ہوا ہو پر ہے یہ صورت بہت خراب
ہم سب ہوئے ہیں سب کی بدولت بہت خراب
۔۔
ہوتی ہیں صبح و شام یہاں قتل حسرتیں
پاتا ہوں دل کے شہر کی حالت بہت خراب
۔۔
پردے ہیں بے نوید دریچے ہیں بے صدا
کمروں میں وہ سکوں ہیکہ ٹہلا کرے کوئی
۔۔۔
تجھ کو کہاں سموؤں میں اپنے حساب میں
ہے یوں کہ خود کو خود سے جدا لکھ رہا ہوں میں
۔۔۔۔۔۔۔
سن کسی اور سے نہ کہیو تو
ہم سوا اس مکان میں کچھ ہے
عدیل زیدی اردو ادب کے وہ خادم ہیں جو نہ صرف اسکے علمی خزانے میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں بلکہ دوسروں کے ادھورے کاموں کو بھی مکمل کر کے تاریخِ ادب کو مالامال کرتے ہیں۔جلد ہی وہ کرشن بہاری نور کی کلیات بھی منظر عام پر لانے والے ہیں۔ انکی مرتب کردہ کتابیں آنے والی نسلوں کے لئے قیمتی سرمایہ ہوں گی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined