ولادیمیر زیلنسکی/ولادیمیر پوتن
روس اور یوکرین کے درمیان گزشتہ تین سال سے جنگ جاری ہے۔ اس درمیان بدھ کو ترکی کے استنبول میں تیسرے دور کی بات چیت ہوئی۔ اس بات چیت میں فی الحال جنگ کا کوئی حل تو نہیں نکل سکا لیکن اچھی بات یہ رہی کہ دونوں ملک قیدیوں کے تبادلے پر متفق ہو گئے۔ یہ میٹنگ ایک گھنٹے سے بھی کم چلی، جس میں جنگ بندی اور رہنماؤں کی میٹنگ جیسے بڑے معاملوں پر کوئی ٹھوس نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا۔ بند کمرے میں ہوئی اس میٹنگ کی صدارت ترکی کے وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے کی۔
Published: undefined
یوکرین کی طرف سے سابق وزیر دفاع روسٹیم امیروف نے بات چیت کی قیادت کی اور اگست کے آخر تک روسی صدر ولادیمیر پوتن اور یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کی براہ راست ملاقات کی تجویز رکھی۔ ساتھ ہی انہوں نے امریکی صدر ٹرمپ اور ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کی شراکت داری کو بے حد اہم بتایا۔ لیکن روسی نمائندہ ولادیمیر میدنسکی جو پوتن کے سینئر صلاح کار ہیں، نے کہا کہ دونوں سربراہان کی ملاقات تبھی ممکن ہے جب کوئی تحریری معاہدہ تیار ہو۔
Published: undefined
دونوں ملکوں کے درمیان جنگ بندی کو لے کر اختلاف کافی گہرے ہیں۔ جہاں یوکرین مکمل اور بلا شرط جنگ بندی کا مطالبہ کر رہا ہے وہیں روس چاہتا ہے کہ صرف سرحدی علاقوں میں 24 سے 48 گھنٹے کے لیے عارضی جنگ بندی ہو، جس سے زخمیوں اور لاشوں کو ہٹایا جا سکے۔ حالانکہ قیدیوں کے تبادلے پر دونوں ملکوں نے اتفاق کر لیا۔ روس نے بتایا کہ تقریباً 250-250 جنگی قیدیوں کی ادلا-بدلی یوکرین-بیلا روس سرحد پر مکمل ہو چکی ہے۔ ساتھ ہی اگلے دور میں 1200-1200 قیدیوں کی ادلا-بدلی کا بھی روڈ میپ بن گیا ہے۔ یوکرین کے صدر زیلنسکی نے بھی ٹیلی گرام پر اس کی تصدیق کرتے ہوئے لکھا، ’’ہمارے لوگوں کو واپس لانا ریاست کی اولین ترجیح ہے۔‘‘
Published: undefined
قابل ذکر ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے روس کو 50 دنوں کا الٹی میٹم دے دیا ہے۔ انہوں نے روس سے کہا ہے کہ یا تو امن کرو، یا پھر بے حد سخت ٹیرف اور پابندیوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہو۔ حالانکہ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے نہ تو ٹرمپ کی وارننگ کا جواب دیا ہے اور نہ ہی اپنی کارروائی روکی ہے بلکہ ڈرونز اور میزائل حملوں سے یوکرین کے شہروں کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
Published: undefined
اس درمیان برطانیہ کی ڈیفنس انٹلی جنس کی رپورٹ کے مطابق روس کو اب تک 10 لاکھ سے زیادہ جانی نقصان ہو چکا ہے۔ ایک امریکی تھنک ٹینک سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز نے بھی یہ امکان پہلے ہی ظاہر کیا تھا۔ باوجود اس کے پوتن پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں دکھائی دے رہے ہیں۔ کئی ماہرین کا ماننا ہے کہ پوتن اب بھی یوکرین کو روس کا حصہ مانتے ہیں اور اس جنگ کو اسی سمت میں لے جانا چاہتے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined