ڈونالڈ ٹرمپ/ولادیمیر پوتن۔ تصویر ’انسٹاگرام‘
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کے درمیان جمعہ کو الاسکا میں ایک اہم میٹنگ ہوئی۔ دونوں عالمی رہنماؤں کی اس ملاقات پر پوری دنیا کی نظر تھی۔ میٹنگ میں ٹرمپ اور پوتن نے روس-یوکرین جنگ کو ختم کرنے کی کوشش پر بات چیت کی۔ حالانکہ اس دوران جنگ بندی معاہدے پر کوئی اتفاق نہیں ہو سکا۔ یہ ملاقات تقریباً 3 گھنٹے تک چلی اور اسے دونوں رہنماؤں نے ثمر آور اور مثبت بتایا۔
Published: undefined
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا، ’’کوئی معاہدہ تب تک نہیں ہوگا، جب تک مکمل بات چیت نہ ہو جائے‘‘۔ انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ کچھ معاملوں پر اتفاق بنی ہے لیکن ابھی کچھ پوائنٹس باقی ہیں۔ پوتن نے مذاکرات کو ’گہرا اور مفید‘ بتایا اور کہا کہ روس ایمانداری سے یوکرین جنگ ختم کرنا چاہتا ہے لیکن اس کے جائز خدشات کا دھیان رکھنا ہوگا۔
Published: undefined
ٹرمپ اور پوتن کے درمیان الاسکا کے اینکریز میں ہوئی اس میٹنگ میں دونوں ملکوں کے وفد موجود رہے۔ دونوں رہنما اعلیٰ صلاح کاروں کے ساتھ تین پر تین فارمیٹ میں ملے۔ ٹرمپ کے ساتھ مارکو روبیو اور وٹکاف کے ساتھ کچھ دیگر افسر بھی موجود رہے۔ وہیں روس کی طرف سے پوتن کے ساتھ سرگئی لاؤروف اور وزیر مالیات اینٹون سلوانوف اور اقتصادی مشیر کیرل دیمیتریف بھی شامل تھے۔ صدر پوتن کا امریکہ میں بی-2 بامبر نے استقبال کیا۔ پوتن کے ریڈ کارپیٹ پر آتے ہی ٹرمپ نے تالیاں بجائیں۔ اس سے پہلے ٹرمپ نے قریب نصف گھنٹے طیارے میں بیٹھ کر پوتن کے الاسکا پہنچنے کا انتظار کیا۔
Published: undefined
مشترکہ پریس کانفرنس میں دونوں رہنماؤں نے صحافیوں سے کوئی سوال نہیں لیا۔ پوتن نے امید ظاہر کی کہ کیف اور یوروپی مملک اسے تعمیری طور پر لیں گے اور کوئی رکاوٹ نہیں ڈٓالیں گے۔ انہوں نے انتباہ کیا کہ کسی بھی ’اُکساوے یا پردے کے پیچھے کی سازش‘ سے پیش رفت کو متاثر نہ کیا جائے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ یوکرین کا معاملہ روس کی قومی سلامتی سے جڑا ہے اور یورپ و دنیا میں سلامتی کا توازن بحال ہونا چاہیے۔
Published: undefined
ٹرمپ نے بتایا کہ کئی معاملوں پر اتفاق ہوا ہے لیکن یوکرین جنگ کے مستقبل کو لے کر کوئی واضح روڈ میپ سامنے نہیں آیا۔ پوتن نے کہا کہ امریکہ اور روس کو تعاون کرنا چاہیے اور آگے کی پیش رفت کی امید ظاہر کی۔ اسٹیج سے جاتے ہوئے پوتن نے انگریزی میں مسکراتے ہوئے کہا، ’’اگلی بار ماسکو میں‘‘۔
Published: undefined
واضح رہے کہ ٹرمپ کئی بار پوتن کی تعریف کر چکے ہیں۔ 2018 میں ہوئی میٹنگ کے بعد ٹرمپ کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا جب انہوں نے امریکی خفیہ ایجنسیوں کی بجائے پوتن کے بیان کو توجہ دی تھی۔ وائٹ ہاؤس لوٹنے سے پہلے ٹرمپ نے کہا کہ ان کے پوتن سے اچھے تعلقات ہیں۔ انہوں نے سابق صدر جو بائیڈن کو جنگ کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا اور دعویٰ کیا کہ وہ 24 گھنٹے میں امن لا سکتے ہیں۔ حالانکہ کئی بار بات چیت اور 28 فروری کو وائٹ ہاؤس میں یوکرین صدر ولادیمیر زیلنسکی کو عوامی طور سے پھٹکارنے کے باوجود پوتن نے سمجھوتے کے کوئی اشارے نہیں دیے۔
Published: undefined
دراصل روس پہلے بھی مطالبہ کر چکا ہے کہ یوکرین ’ناٹو‘ میں شامل ہونے کی خواہش ترک کردے اور اپنے مشرقی علاقوں کو روس کو سونپ دے، جنہیں وہ پہلے ہی اپنے میں ملا چکا ہے۔ یوکرین ان مطالبات کو خارج کر چکا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ کسی بھی امن معاہدے میں اسے سلامتی کی گارنٹی ملنی چاہیے تاکہ روس دوبارہ حملہ نہ کرے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined