
ایران کی کرنسی ریال امریکی ڈالر کے مقابلہ میں 14 لاکھ کی نئی ریکارڈ کم ترین سطح پر آ گئی ہے۔ یعنی اب ایک امریکی ڈالر خریدنے کے لیے 14 لاکھ ایرانی ریال خرچ کرنے پڑیں گے۔ اس کا براہ راست مطلب یہ ہے کہ ریال کی قدر تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ ریال میں یہ نمایاں کمی پابندیوں اور علاقائی کشیدگیوں کے درمیان ہوئی ہے، جس کی وجہ سے ایران میں مہنگائی میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔
Published: undefined
ریال کی قیمت میں نمایاں کمی کے بعد ایران کے سنٹرل بینک کے ہیڈ محمد رضا فرزین نے پیر (29 دسمبر) کو استعفیٰ دے دیا ہے۔ کیونکہ ملک کی کرنسی امریکی ڈالر کے مقابلے نئی ریکارڈ کم ترین سطح پر گرنے کے بعد تہران اور کئی دوسرے شہروں میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ واضح رہے کہ محمد رضا فرزین کے استعفیٰ کی خبر سے قبل سیکڑوں تاجروں اور دکانداروں نے تہران کے ڈاؤن ٹاؤن میں سعدی اسٹریٹ کے ساتھ ساتھ تہران کے مرکزی گرینڈ بازار کے پاس شوشو محلہ میں ریلی کی۔ بازار میں کاروباریوں نے 1979 کے اسلامی انقلاب میں اہم کردار ادا کیا تھا، جس نے بادشاہت کا خاتمہ کیا اور اسلام پسندوں کو اقتدار میں لایا تھا۔
Published: undefined
تہران کے کئی حصوں میں مظاہرہ کر رہے بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس کا استعمال کیا، سڑکوں پر حکومت مخالف نعرے لگائے گئے۔ حالانکہ ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے نرم رویہ اختیار کیا ہے۔ انہوں نے وزیر داخلہ کو ہدایت دی ہے کہ وہ مظاہرین کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت کریں تاکہ مسائل کا جلد حل نکالا جا سکے۔
Published: undefined
یہ صورتحال عالمی سرمایہ کاروں اور ایرانی شہریوں کا اپنی قومی کرنسی ریال اور ملک کے معاشی استحکام پر شدید بے اعتمادی کو ظاہر کرتی ہے۔ ایران کو بین الاقوامی بینکنگ سسٹم (جیسے سویفٹ) سے مکمل طور پر الگ کر دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ سے غیر ملکی تجارت اور لین دین تقریباً ختم ہو گیا ہے۔ امریکہ کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں نے ایران کے سب سے بڑے ریونیو سورس، تیل کی برآمدات کو بری طرح متاثر کیا ہے، کیونکہ ایران تیل فروخت نہیں کر پا رہا ہے اور اسے غیر ملکی کرنسی نہیں مل رہی ہے۔
Published: undefined
2015 کے جوہری معاہدے کے وقت ایران کی کرنسی ڈالر کے مقابلے میں 32000 ریال پر ٹریڈ کر رہی تھی، جس نے ایران کے جوہری پروگرام پر سخت کنٹرول کے بدلے بین الاقوامی پابندیاں ہٹا دی تھیں۔ یہ ڈیل اس وقت ٹوٹ گئی جب 2018 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر امریکہ کو اس سے الگ کر لیا۔ رواں سال جون میں ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 دن کی لڑائی کے بعد نئے تصادم کے خطرے کو لے کر بھی غیر یقینی صورتحال ہے۔ کئی ایرانی اس بات سے بھی ڈرتے ہیں کہ ایک بڑے تصادم کا امکان ہے جس میں امریکہ بھی شامل ہو سکتا ہے، جس سے مارکیٹ کی تشویش بڑھ جائے گی۔ اسی طرح رواں سال ستمبر میں اقوامِ متحدہ نے ایران پر ایٹمی پروگرام سے متعلق پابندیاں دوبارہ نافذ کر دیں، جسے سفارت کاروں نے ’اسنیپ بیک‘ میکانزم قرار دیا۔ ان اقدامات نے ایک بار پھر بیرون ملک ایرانی اثاثوں کو فریز کر دیا، تہران کے ساتھ ہتھیاروں کے لین دین کو روک دیا اور ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام سے وابستہ جرمانے عائد کر دیے۔
Published: undefined
واضح رہے کہ ریال میں تیزی سے ہو رہی گراوٹ کی وجہ سے مہنگائی کا دباؤ بڑھ رہا ہے، جس سے کھانے پینے کی اشیاء اور روزمرہ کی دوسری ضرورتوں کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور گھروں کے بجٹ پر مزید بوجھ پڑ رہا ہے۔ یہ ٹرینڈ حالیہ دنوں میں پیٹرول کی قیمتوں میں تبدیلی سے مزید خراب ہو سکتا ہے۔ اسٹیٹ اسٹیٹسٹکس سنٹر کے مطابق دسمبر میں مہنگائی کی شرح گزشتہ سال اسی وقت کے مقابلے میں بڑھ کر 42.2 فیصد ہو گئی، اور یہ نومبر کے مقابلے میں 1.8 فیصد زیادہ ہے۔ اسٹیٹسٹکس سنٹر کے مطابق کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں گزشتہ سال دسمبر سے 72 فیصد اور صحت و طبی اشیاء کی قیمتوں میں 50 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ کئی ناقدین اس شرح کو آنے والی ہائپر انفلیشن کی علامت سمجھ رہے ہیں۔ ایران کے آفیشل میڈیا میں آنے والی رپورٹس کے مطابق حکومت 21 مارچ سے شروع ہونے والے ایرانی نئے سال میں ٹیکس بڑھانے کا منصوبہ بنا رہی ہے، اس کی وجہ سے تشویش میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز