استنبول ميں رپورٹرز سے بات چيت کرتے ہوئے ایردوآن نے کہا، ''ترکی کی تربيتی فورسز ليبيا ميں ہيں۔ اس کے علاوہ سیریئن نيشنل آرمی کے جنگجو بھی وہاں سرگرم ہيں۔‘‘سیریئن نيشنل آرمی شامی باغيوں پر مشتمل فورس ہے، جسے پہلے فری سیریئن آرمی کے نام سے جانا جاتا تھا۔
Published: undefined
ترک حکومت ليبيا ميں اقوام متحدہ کی حمايت يافتہ حکومت (GNA) کی حامی ہے۔ اس حکومت کا مرکز طرابلس ميں ہے اور پچھلے سال کے اواخر ميں ايک معاہدے کے بعد ترکی نے طرابلس حکومت کی مدد کے ليے تربيتی فوجی دستے بھی روانہ کيے تھے۔ طرابلس حکومت کو کئی ماہ سے کمانڈر خليفہ حفتر کی حامی افواج کے حملوں کا سامنا ہے، جنہيں روس کی حمايت حاصل ہے۔ اس سال جنوری ميں جنيوا ميں امن مذاکرات کے دو ادوار منعقد ہوئے، جن ميں فريقين نےحصہ ليا تھا اور جنگ بندی کے معاہدے کو حتمی شکل بھی دی تاہم اس کی خلاف ورزی مسلسل جاری ہے۔
Published: undefined
جمعے اکيس فروری کو اپنے ايک بيان ميں خليفہ حفتر نے کہا ہے کہ جنگ بندی کے ليے ان کی شرائط ہيں کہ ليبيا سے تمام شامی و ترک جنگجو واپس جائيں اور انقرہ حکومت طرابلس حکومت کو اسلحے کی فراہمی بند کرے۔ دوسری جانب ایردوآن کا دعوی ہے کہ روس نے 'واگنر‘ نامی ايک نجی کمپنی کے ڈھائی ہزار جنگجو ليبيا روانہ کيے ہيں۔ روس نے اس الزام کی ترديد کی ہے۔ ترک صدر کا يہ بھی الزام ہے کہ حفتر کو لگ بھگ پندرہ ہزار 'دہشت گردوں‘ کی حمايت حاصل ہے۔ ایردوآن کے مطابق متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب بھی حفتر کی پشت پناہی کر رہے ہيں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined