پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے بدھ چار دسمبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق یہ اعداد و شمار اس فہرست میں شامل ہیں، جو اس نیوز ایجنسی کے صحافیوں نے خود دیکھی ہے اور جو پاکستانی تفتیشی ماہرین نے تیار کی ہے۔
Published: undefined
یہ تفتیش پاکستانی خواتین کی چینی مردوں سے شادیوں کے بڑھتے ہوئے رجحان کے پیش نظر اور اس خدشے کے تحت کی گئی کہ انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ان پیشہ ور گروہوں کی روک تھام کی جا سکے، جو پاکستان کے غریب گھرانوں کی لڑکیوں کو خوشحالی کے وعدے کر کے اپنا نشانہ بنا رہے ہیں۔
Published: undefined
Published: undefined
پاکستان سے خواتین کی چین اسمگلنگ کے کئی واقعات سامنے آنے کے بعد یہ چھان بین گزشتہ برس 2018ء میں شروع کی گئی تھی۔ اس تفتیش کے اب تک جو نتائج سامنے آئے ہیں، وہ ایسی متاثرہ خواتین کی تعداد کے حوالے سے اپنی نوعیت کے اولین ٹھوس حقائق کی نشاندہی کرتے ہیں۔
Published: undefined
اے پی نے لکھا ہے کہ پاکستانی خواتین کی اس ٹریفکنگ سے متعلق تفتیشی مہم اس سال جون کے بعد سے زیادہ تر روکی جا چکی ہے۔ اس تفتیش سے واقف حکام کے مطابق اس کا سبب حکومتی اہلکاروں کا مبینہ دباؤ ہے، جن کو خدشہ ہے کہ ایسے واقعات کی تفصیلات منظر عام پر آنے سے اسلام آباد کے بیجنگ کے ساتھ مالیاتی حوالے سے بہت فائدہ مند تعلقات خراب ہو سکتے ہیں۔
Published: undefined
Published: undefined
اس طرح کے مبینہ جرائم کا ایک بڑا واقعہ اسی سال اکتوبر میں اس وقت شہ سرخیوں کی وجہ بنا تھا، جب فیصل آباد میں ایک عدالت نے 31 چینی شہریوں کو خواتین کی ٹریفکنگ سے متعلق الزامات سے بری کر دیا تھا۔
Published: undefined
اس مقدمے میں تفتیشی نتائج سے واقف پولیس اہلکاروں اور چند عدالتی حکام کے مطابق کئی ایسی خواتین، جنہوں نے شروع میں تو پولیس کو انٹرویو دیے تھے، بعد ازاں دھمکیاں دیے جانے یا پیسے دے کر زبردستی خاموش کرا دیے جانے کے بعد اس مقدمے میں چینی ملزمان کے خلاف بیانات دینے سے مکر گئی تھیں۔ ان خواتین میں سے صرف دو نے اس لیے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تفصیلی بیانات دیے کہ بعد میں انہیں خطرناک صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
Published: undefined
Published: undefined
پاکستان کی ایسی کئی لڑکیوں کو نام نہاد شادیوں کے بعد چین بھیجے جانے سے بچانے اور کئی پاکستانی والدین کو اپنی بچیاں چین سے واپس بلانے میں مدد دینے والے ایک مسیحی سماجی کارکن سلیم اقبال نے بتایا، ''حکومت نے اپنا دباؤ استعمال کرتے ہوئے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے اہلکاروں کو مجبور کرنے کی کوشش کی کہ وہ خواتین کی ٹریفکنگ کرنے والے گروہوں کے بارے میں چھان بین نہ کریں۔‘‘
Published: undefined
سلیم اقبال نے ایک انٹرویو میں مزید بتایا، ''چند ایف آئی اے اہلکاروں کو تو ٹرانسفر بھی کر دیا گیا۔ جب ہم نے حکمرانوں سے بات کرنے کی کوشش کی، تو انہوں نے اس مسئلے پر کوئی دھیان ہی نہ دیا۔‘‘
Published: undefined
اے پی کے مطابق اس نے اپنی اس رپورٹ کے سلسلے میں اسلام آباد میں داخلہ اور خارجہ امور کی ملکی وزارتوں سے خواتین کی ٹریفکنگ کی ایسی شکایات کے بارے میں ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا تو وزارتی نمائندوں نے کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
Published: undefined
دوسری طرف بیجنگ میں چینی وزارت خارجہ نے کہا کہ وہ ایسی کسی فہرست سے بے خبر ہے، جس میں شادیوں کے نام پر پاکستان سے چین اسمگل کی گئی خواتین کی کوئی بات کی گئی ہو۔
Published: undefined
Published: undefined
اے پی کے مطابق پاکستانی ہوائی اڈوں سے بیرون ملک جانے والے ملکی شہریوں کے ڈیجیٹل ریکارڈ کے مطابق پاکستان سے مجموعی طور پر 629 ایسی خواتین چین گئیں، جو خود تو پاکستانی شہری تھیں لیکن جن کے شوہر چینی تھے۔
Published: undefined
ایسی شادیوں میں سے زیادہ تر 2018ء سے لے کر اس سال اپریل تک کے درمیانی عرصے میں ہوئی تھیں۔ ایک پاکستانی اہلکار کے مطابق یہ تمام پاکستانی لڑکیاں ان کے گھر والوں کی طرف سے عملی طور پر چینی مردوں کو 'بیچ دی‘ گئی تھیں۔
Published: undefined
اس اہلکار نے ایک انٹرویو میں بتایا، ''ایسی شادیاں کروانے والے 'سہولت کار‘ ایسی ہر شادی کے بدلے دلہا سے پاکستانی چار ملین روپے سے لے کر 10 ملین روپے تک کی رقم حاصل کرتے ہیں، جو 25 ہزار امریکی ڈالر سے لے کر 65 ہزار ڈالر تک بنتی ہیں۔ ان رقوم میں سے دلہن کے طور پر کسی بھی لڑکی کے لیے اس کے خاندان کو اکثر صرف دو لاکھ روپے (1500 امریکی ڈالر) تک ہی ادا کیے جاتے ہیں۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined