
جے رام رمیش / آئی اے این ایس
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے اس اعلان نے عالمی سفارتی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے کہ آئندہ جی-20 سمٹ، جو امریکہ میں منعقد ہوگا، اس میں جنوبی افریقہ کو شامل نہیں کیا جائے گا۔ ٹرمپ کے مطابق جنوبی افریقہ کو 2026 کے اجلاس کا دعوت نامہ بھی نہیں بھیجا جائے گا۔ اس فیصلے نے نہ صرف افریقہ بلکہ جی-20 کے مستقل اراکین کے مابین بھی نئی بحث کو جنم دیا ہے۔
ٹرمپ کے اعلان پر انڈین نیشنل کانگریس کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے غلط روایت اور جغرافیائی سیاست کو کمزور کرنے والی حرکت قرار دیا۔ انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اگر وہ خود کو ’گلوبل ساؤتھ‘ اور خصوصاً ’افریقہ کا چیمپئن‘ سمجھتے ہیں تو پھر انہیں اس معاملے پر اپنے ’اچھے دوست‘ کی پالیسی پر سوال اٹھانا چاہیے۔
Published: undefined
جے رام رمیش نے اپنے بیان میں یاد دلایا کہ جنوبی افریقہ جی-20 کا حصہ کسی رعایت کے طور پر نہیں بلکہ اپنی معاشی حیثیت کے باعث ہے۔ وہ جی-20 کے پہلے ہی اجلاس، جو واشنگٹن ڈی سی میں صدر جارج ڈبلیو بش کی صدارت میں منعقد ہوا تھا، سے ایک مستقل رکن ہے اور ہر اجلاس میں اہم کردار ادا کرتا آیا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ جنوبی افریقہ اور ہندوستان کے درمیان تعلقات محض سفارتی یا معاشی نوعیت کے نہیں، بلکہ تاریخی اور جدوجہدِ آزادی سے جڑے ہوئے ہیں۔ جے رام رمیش نے مہاتما گاندھی کے جنوبی افریقہ میں گزرے برسوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہندوستان نے نسل پرستی اور رنگ کے امتیاز کے خلاف عالمی مہم میں ہمیشہ صفِ اول میں رہ کر جنوبی افریقہ کا ساتھ دیا۔
Published: undefined
کانگریس رہنما نے واضح کیا کہ ہندوستان اور جنوبی افریقہ نہ صرف برکس (بی آئی سی ایس) کے بنیادی ارکان میں شامل ہیں بلکہ آئی بی ایس اے اور بیسک (بی اے ایس آئی سی) گروپ کا بھی حصہ ہیں، اس لیے امریکہ کی جانب سے جنوبی افریقہ کو باہر کرنا عالمی اقتصادی گفتگو کو محدود کرنے کے مترادف ہے۔
جے رام رمیش نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ ’’وزیر اعظم مودی خود کو افریقہ اور گلوبل ساؤتھ کا محافظ کہتے ہیں اور ٹرمپ کو اپنا قریبی دوست بھی قرار دیتے ہیں۔ کیا وزیر اعظم اس فیصلے کے خلاف آواز بلند کریں گے اور جنوبی افریقہ کے جائز حق کا دفاع کریں گے، یا پھر خاموش رہیں گے؟‘‘
Published: undefined
خیال رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کا الزام ہے کہ جنوبی افریقہ میں سفید فام کسانوں کے ساتھ مبینہ زیادتیوں اور داخلی سیاسی عدم استحکام کے باعث وہ اسے جی-20 کے پلیٹ فارم پر اعتماد کے قابل نہیں سمجھتے لیکن عالمی ماہرین اس مؤقف کو سفارت کاری کی جگہ داخلی سیاست سے جوڑتے ہیں۔
Published: undefined