قومی خبریں

’بچے مر رہے ہیں، چکن کھانے والے بھی خود کو جانوروں کے شوقین کہتے ہیں‘، بحث کے بعد سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ رکھا

سپریم کورٹ میں آوارہ کتوں کو شیلٹر ہوم بھیجنے کے حکم پر سماعت ہوئی۔ حکومت نے حفاظتی ضرورت پر زور دیا، جبکہ عرضی گزاروں نے اعتراضات اٹھائے۔ عدالت نے فیصلہ محفوظ رکھتے ہوئے حل نکالنے پر زور دیا

<div class="paragraphs"><p>سپریم کورٹ / آئی اے این ایس</p></div>

سپریم کورٹ / آئی اے این ایس

 

نئی دہلی: دہلی-این سی آر میں آوارہ کتوں کو شیلٹر ہوم منتقل کرنے کے سپریم کورٹ کے حالیہ حکم کے خلاف دائر عرضیوں پر آج عدالتِ عظمیٰ میں گرما گرم بحث ہوئی۔ تین رکنی خصوصی بنچ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔ دہلی حکومت کی جانب سے پیش ہونے والے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ آوارہ کتوں کے حملوں سے بچے مر رہے ہیں اور صرف نس بندی سے یہ مسئلہ ختم نہیں ہو رہا۔

Published: undefined

انہوں نے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ملک میں ہر سال تقریباً 305 افراد ایسے حملوں میں ہلاک ہوتے ہیں جن میں زیادہ تر کی عمریں 15 سال سے کم ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارا مقصد کتوں کو مارنا نہیں بلکہ انہیں انسانی آبادی سے الگ رکھنا ہے تاکہ شہری محفوظ رہیں۔ انہوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ }کچھ لوگ چکن اور انڈے کھاتے ہیں لیکن خود کو جانوروں کے شوقین بتاتے ہیں۔‘

Published: undefined

سالیسٹر جنرل نے کہا کہ شہری اب بچوں کو باہر بھیجنے سے گھبرا رہے ہیں، صرف قواعد بنانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا، عدالت کو مداخلت کرنی پڑے گی۔

عرضی گزاروں کی نمائندگی کرتے ہوئے سینئر وکیل کپل سبل نے مؤقف اپنایا کہ نس بندی کے بعد کتوں کو چھوڑنے سے روکنا قواعد کے خلاف ہے اور اس پر فوری روک لگنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اگر بڑی تعداد میں کتوں کو ایک ہی جگہ رکھا گیا تو وہ ایک دوسرے پر حملہ کریں گے اور اس کے اثرات انسانوں پر بھی پڑیں گے۔

Published: undefined

کپل سبل نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کا حکم گزشتہ شام اپ لوڈ ہوا لیکن اس سے پہلے ہی انتظامیہ نے سڑکوں سے کتے اٹھانا شروع کر دیے تھے، جو عمل قابل اعتراض ہے۔ عدالت نے حیرت ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ کس طرح ممکن ہوا۔

بنچ نے کہا کہ کیس کو فوری طور پر ختم نہیں کیا جائے گا بلکہ دیکھا جائے گا کہ فیصلے کے کن حصوں پر اعتراض ہے اور آیا ان پر حکمِ امتناع جاری ہونا چاہیے یا نہیں۔ عدالت نے فریقین کو عملی حل تلاش کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ تنازع کو بڑھانے کے بجائے مسئلے کا پائیدار حل نکالا جائے۔

Published: undefined