قومی خبریں

رونگٹے کھڑے کرنے والی ہے ’شرمک ٹرین‘ میں اموات کی داستانیں

یہ سچ ہے کہ حکومت کبھی اس بحران میں ریلوے کی بے حسی اور بدانتظامی سے لوگوں کی موت کا اعتراف نہیں کرنے والی، لیکن جن کی موت ہوئی ہے ان کی لاشیں سچ جانتی ہیں اور چیخ چیخ کر حکومت سے سوال کر رہی ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

یہ بھلے ہی حکومت کے لیے محض گنتی ہو، میڈیا کے لیے خبر اور سیاسی لیڈروں کے لیے بیانوں کی کھیتی کی کھاد، لیکن جن کی دنیا اجڑ گئی ان کے لیے زندگی بھر کا درد ہے۔ شرمک اسپیشل ٹرینوں سے جو لوگ کسی طرح اپنے گاؤں گھر پہنچ پائے، ان کے قصے رونگٹے کھڑے کر دینے والے ہیں۔

Published: 04 Jun 2020, 3:11 PM IST

24 مئی کو مہاراشٹر سے مظفر پور آ رہی شرمک اسپیشل ٹرین میں مظفر پور کی ایک خاتون کو مدھیہ پردیش میں نرسنگھ پور کے پاس درد زہ ہوا تھا۔ اگلے اسٹیشن جبل پور میں نوزائیدہ کو ٹھیک بتا کر ٹرین کو آگے بڑھا دیا گیا۔ آگے ستنا اسٹیشن آیا۔ وہاں بھی اس کی حالت پر کسی کو رحم نہیں آیا۔ اگلے اسٹیشن پر رکنے سے پہلے بچی کی موت ہو گئی اور باقی کا سفر اسے آئس باکس میں کرنا پڑا۔

Published: 04 Jun 2020, 3:11 PM IST

سیتامڑھی کے کھجوری سید پور تھانہ حلقہ کے سون پور باشندہ دیویش پنڈت رو رو کر جو کہانی سناتے ہیں، اسے جان سن کر ہی کوئی بھی رو پڑے۔ ممبئی سے سیتامڑھی کے لیے ٹرین پکڑنے والے دیویش کے ساتھ بیوی اور آٹھ مہینے کا بچہ بھی تھا۔ راستے میں بچے کو تکلیف ہوئی تو پنڈت کی فیملی آگرہ میں اتر گئی۔ دیویش کہتے ہیں "آگرہ میں علاج تو کیا گیا، لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ ابھی نکلنے سے بچے کی زندگی کو خطرہ ہے۔ اور تو اور، یہ کہہ کر کہ ٹرین سیتامڑھی جائے گی، ہمیں راج کوٹ-بھاگلپور اسپیشل ٹرین میں بٹھا دیا گیا۔"

Published: 04 Jun 2020, 3:11 PM IST

دیویش پنڈت کے مطابق "کانپور پہنچنے سے پہلے ہی بچے نے دم توڑ دیا۔ کانپور سے گیا جنکشن تک بچے کی لاش کے ساتھ آنے کے بعد پتہ چلا کہ ٹرین تو دوسرے روٹ پر ہے۔ سیتامڑھی نہیں جائے گی۔ پھر یہاں سے کاغذی کارروائی کے بعد سیتامڑھی کے لیے نکل سکے۔ اس دوران شرمک ٹرینوں میں کئی بچوں کی پیدائش بھی ساتھی مسافروں کی دیکھ ریکھ میں ہوئی اور جو دیگر لوگ زندہ پہنچے، وہ بھی ان کی مدد کے ہی بھروسے۔

Published: 04 Jun 2020, 3:11 PM IST

ممبئی کے دھاراوی میں رہ رہے محمد ظفیر کے لیے جب وہاں کھانا پینا مشکل ہو گیا تو وہ بہار جانے کے لیے چھٹپٹانے لگے۔ بہت کوشش کی تو ٹکٹ کی باری آئی، لیکن ان کی بیوی شہانہ خاتون اور بیٹی یاسمین کو اس لیے ٹکٹ دینے سے منع کر دیا گیا کہ ان کے پاس آدھار کارڈ نہیں تھا۔ بیوی اور بیٹی کا آدھار کارڈ بہار میں تھا، لیکن کسی نے راستہ نہیں بتایا کہ کس طرح ای-آدھار سے کام بن سکتا ہے۔

Published: 04 Jun 2020, 3:11 PM IST

جب کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو ظفیر بیوی اور بیٹی کو وہیں چھوڑ کر شرمک ٹرین سے تنہا ہی بہار کے لیے نکل گیا۔ شہانہ کہتی ہیں کہ "ممبئی سے وہ ٹھیک ٹھاک نکلے تھے۔ بہار پہنچ گئے تو تسلی بھی ہوئی۔ لیکن گوپال گنج میں طبیعت بگڑی اور پھر انتقال کی منحوس خبر آئی۔ 29 مئی کو ان کا جسم تو گاؤں پہنچ گیا، لیکن ہم انھیں اب بھی اسی ٹرین میں محسوس کر رہے ہیں۔"

Published: 04 Jun 2020, 3:11 PM IST

اسی طرح کٹیہار کی 23 سالہ اربینہ خاتون کی تو مظفر پور جنکشن پر لاش ہی اتاری گئی۔ لاش کے ساتھ سلوک بھی سرخیوں میں آیا کیونکہ اسٹیشن پر اس کا معصوم بچہ اس کے اوپر رکھی چادر سے کھیل رہا تھا، مانو وہ سوئی ہوئی ہو۔ ایسے ہی نامعلوم اسباب سے بیتیا کے چار سالہ ارشاد کا بھی انتقال ہو گیا تھا۔ گھر والے اس کی موت کی وجہ بے انتہا گرمی میں خالی پیٹ رہنا بتا رہے ہیں، حالانکہ اس پر کوئی سرکاری بیان نہیں آیا۔

Published: 04 Jun 2020, 3:11 PM IST

بھاگلپور کے انیرودھ ساہ تو اپنے ضلع پہنچ کر بھی نہیں بچے۔ تیز بخار میں ہی طویل دوری تک سفر کرتے رہے، نتیجتاً بھاگلپور میں وینٹی لیٹر پر رکھے جانے کے باوجود سانس نہیں لوٹی۔ کورونا ضابطہ کے تحت آخری رسومات ادا ہوئی، لیکن رپورٹ نگیٹو آنے کے بعد اہل خانہ معاوضہ مانگیں بھی تو کس مد میں؟

Published: 04 Jun 2020, 3:11 PM IST

ایسا ہی معاملہ کھگڑیا میں بھی پیش آیا۔ ہریانہ سے 38 سال کے پشوپتی سدا اپنے آبائی ضلع تو پہنچ گئے، لیکن گھر پہنچنے کے پہلے ٹرین میں موت ہو گئی۔ انھیں بھی کورونا نہیں تھا۔ اب غریب گھر والے یہ پوچھ رہے ہیں کہ انھیں معاوضہ بھی ملے گا یا ویسے ہی مر جائیں۔

Published: 04 Jun 2020, 3:11 PM IST

اسی طرح چنئی سے مدھوبنی کے لیے چلے جھنجھارپور کے 53 سالہ سہدیو رام کے بارے میں بھی گھر والے یہی سوال اٹھا رہے ہیں اور مہاراشٹر سے کٹیہار آنے کے دوران برونی اسٹیشن پر اچانک چھٹپٹاکر سانس توڑنے والے اودھ پور قاضی ٹولہ باشندہ انور کے اہل خانہ بھی۔

Published: 04 Jun 2020, 3:11 PM IST

یہ تو بس اس تباہی کی زد میں آئے کچھ لوگوں کی داستانیں ہیں۔ ایسے ہی نہ جانے کتنے لوگوں کی موت حکومت اور ریلوے کی بے حسی اور بدانتظامی کی وجہ سے ہو گئی ہے۔ حالانکہ یہ سچ ہے کہ کبھی بھی کوئی حکومت اس کا اعتراف نہیں کرنے جا رہی ہے، لیکن جن کے اوپر گزری ہے، جنھوں نے اپنوں کو کھویا ہے اور جن کی موت ہوئی ہے ان کی لاش سارا سچ جانتی ہے اور چیخ چیخ کر حکومت سے سوال کر رہی ہے۔

Published: 04 Jun 2020, 3:11 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 04 Jun 2020, 3:11 PM IST