قومی خبریں

اظہارِ رائے کی آزادی کی جنگ میں دلت، پسماندہ اور اقلیتی نوجوان پیش پیش، مگر ان پر حملے ہو رہے ہیں: راہل گاندھی....دیکھیں ویڈیو

راہل گاندھی نے کہا کہ مین اسٹریم میڈیا نے دلت، پسماندہ اور اقلیتی برادری کی آواز دبا دی، نوجوان یوٹیوب و سوشل میڈیا پر جدوجہد کر رہے ہیں مگر انہیں دھمکیوں اور جھوٹے مقدمات کا سامنا ہے...دیکھیں ویڈیو

<div class="paragraphs"><p>تصویر بشکریہ یوٹیوب</p></div>

تصویر بشکریہ یوٹیوب

 

کانگریس رہنما راہل گاندھی نے ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ مین اسٹریم میڈیا میں بہوجن، دلت، پسماندہ اور اقلیتی برادری کی آوازیں غائب ہیں، اسی لیے یہ نوجوان اپنے مسائل اور اپنے معاشرے کی کہانیاں یوٹیوب اور دیگر سوشل پلیٹ فارمز پر اجاگر کر رہے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ان کی کوششوں کو دبانے کے لیے انہیں دھمکیوں، جھوٹے مقدمات اور تشدد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

راہل گاندھی نے ایکس پر لکھا، ’’مین اسٹریم میڈیا میں بہوجن سماج کی آوازیں اور کہانیاں ناپید ہیں۔ اسی لیے وہ سوشل میڈیا پر اپنا سچ رکھتے ہیں، مگر وہاں بھی ان پر تشدد، دھمکیوں اور مقدمات کا سایہ رہتا ہے۔ ہم 90 فیصد کی آواز کے ساتھ کھڑے ہیں اور اسے دبنے نہیں دیں گے۔’’

Published: undefined

اسی ویڈیو کو انہوں نے یوٹیوب پر بھی شیئر کیا اور کیپشن میں مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جب مین اسٹریم میڈیا نے بہوجن برادری کی آواز اور مسائل کو نظر انداز کر دیا تو یہ نوجوان اپنی ہمت پر یوٹیوب جیسے پلیٹ فارم پر اپنی کمیونٹی کی تکالیف کو سامنے لانے لگے لیکن منو وادی طاقتیں اس کو بھی برداشت نہیں کر پاتیں اور ان پر جھوٹے مقدمات بنا دیے جاتے ہیں، ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہاں تک کہ جان سے مارنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔

راہل گاندھی نے کہا کہ بہار کے ان نوجوانوں کی تکالیف سن کر دکھ ہوا کہ ہمارے بہادر بچے ایسی اذیتیں جھیل رہے ہیں لیکن ساتھ ہی فخر بھی ہے کہ دباؤ اور خطرات کے باوجود یہ نوجوان سچ بولنے سے باز نہیں آتے۔ ان کے مطابق یہ صرف بہوجن برادری کی لڑائی نہیں بلکہ ہندوستان کی جمہوریت اور اظہارِ رائے کی آزادی کا بھی سوال ہے۔

Published: undefined

ویڈیو میں کئی نوجوان صحافیوں اور یوٹیوبرز نے اپنی جدوجہد بیان کی۔ ایک نوجوان نے بتایا کہ انہوں نے بہار کے مختلف اضلاع میں ایک ٹیم بنا رکھی ہے جو وہاں ہونے والے ظلم، خواتین اور بچوں پر تشدد یا پولیس کے رویے کو رپورٹ کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مین اسٹریم میڈیا ان واقعات کو نظر انداز کرتا ہے، اس لیے ہم اپنی آواز خود اٹھانے پر مجبور ہیں۔

اسی دوران ایک خاتون رپورٹر نے کہا کہ وہ ’خبر لہریا‘ نامی چینل میں بطور سینئر رپورٹر کام کرتی ہیں، جو مکمل طور پر خواتین کی جانب سے چلایا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ فیلڈ میں بطور خاتون صحافی انہیں مسلسل مشکلات کا سامنا رہتا ہے، رات کے وقت کوریج، سڑکوں پر تنہا سفر کرنا اور مردوں کے درمیان کام کرنا سب چیلنج ہے، مگر وہ پیچھے نہیں ہٹتیں۔

Published: undefined

ایک اور نوجوان نے انکشاف کیا کہ صرف آواز بلند کرنے کی وجہ سے ان پر جان لیوا حملہ ہوا۔ ان کے مطابق ایک دوست، جو شدت پسند نظریے سے متاثر ہو گیا تھا، نے انہیں دشمن سمجھ کر جان سے مارنے کی کوشش کی۔ حملے کے ملزم کو محض 20 دن میں ضمانت مل گئی، مگر دھمکیاں اب بھی ملتی ہیں۔

کھگڑیا ضلع کے ایک نوجوان یوٹیوبر نے بتایا کہ وہ پچھلے کئی سالوں سے عوامی مسائل کو سامنے لا رہے ہیں، مگر سیاسی دباؤ کی وجہ سے ان پر جھوٹے مقدمات تھوپ دیے گئے اور پولیس نے انصاف دینے کے بجائے انہیں ہراساں کیا۔ ان کے مطابق جمہوریت کے نعرے تو بلند کیے جاتے ہیں مگر زمینی سطح پر مظلوم کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

Published: undefined

راہل گاندھی نے نوجوانوں کو یقین دلایا کہ ان کی جدوجہد اکیلی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، ’’یہ صرف تمہاری نہیں بلکہ ہندوستان کی جمہوریت اور آزادی کی لڑائی ہے۔ تم 52 نوجوان دہلی آؤ، ہم مل کر بیٹھیں گے اور دیکھیں گے کہ تمہاری حفاظت اور تعاون کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے۔ بڑے وعدے نہیں کروں گا، مگر ساتھ کھڑا رہوں گا۔‘‘

Published: undefined

راہل گاندھی کا یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب وہ ’ووٹر ادھیکار یاترا‘ کے دوران عوام سے رابطہ کر رہے ہیں اور مسلسل یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا واقعی ہندوستان میں ہر طبقے کی آواز کو سننے کا حق حاصل ہے یا نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر 90 فیصد آبادی والے طبقات کی آواز دبائی جاتی ہے تو جمہوریت صرف نام کی رہ جاتی ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined