نئی دہلی: عبادت گاہوں کا تحفظ قانون (پلیسز آف ورشپ ایکٹ) سے متعلق عرضیوں پر آج چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ کے سامنے سماعت ہوئی۔ اس دوران چیف جسٹس نے گزشتہ سماعت میں دیے گئے اسٹے کو برقرار رکھتے ہوئے نئی عرضیوں پر نوٹس جاری کرنے کی جگہ انھیں عرضی کی شکل میں داخل کرنے کی ہدایت دی۔ چیف جسٹس کے مطابق اب اس معاملے کی سماعت 3 ججوں کی نئی بنچ آئندہ اپریل کے پہلے ہفتہ میں کرے گی۔
Published: undefined
آج اس قانون کے خلاف 5 نئی عرضیاں سماعت کے لیے پیش کی گئی تھیں، لیکن عدالت نے ان پر نوٹس جاری کرنے سے انکار کر دیا۔ حالانکہ وکلا نے عدالت سے گزارش کی کہ اب تک داخل سبھی عرضیوں کو سماعت کے لیے منظور کیا جائے، لیکن عدالت نے کہا کہ کسی بھی چیز کی ایک حد ہوتی ہے، اور یہ حد عدالت کو طے کرنی ہے۔ اس لیے جن عرضیوں پر پہلے نوٹس جاری نہیں کیا گیا، ان پر اب نوٹس جاری نہیں کیا جائے گا، لیکن انھیں فریق کی شکل میں درخواست داخل کرنے کی اجازت ہوگی۔
Published: undefined
چیف جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس سنجے کمار کی بنچ نے آج ’پلیسز آف ورشپ ایکٹ‘ کی حمایت اور خلاف میں داخل سبھی عرضیوں کی ایک ساتھ سماعت کی۔ سپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجود مرکزی حکومت نے ابھی تک اپنا حلف نامہ داخل نہیں کیا، جس پر اس قانون کے خلاف عرضی داخل کرنے والے وکلا نے ناراضگی ظاہر کی۔ اس پر چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ پہلے عرضیوں کے داخلے کا عمل پورا ہو جائے، اس کے بعد مرکزی حکومت سبھی عرضیوں پر ایک ساتھ حلف نامہ داخل کرے گی۔
Published: undefined
آج عدالت میں جمعیۃ علماء ہند کے وکیل ایڈووکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول (نوڈل کونسل) نے اب تک اس معاملے میں داخل سبھی عرضیاں کا اختصار پیش کیا، جسے چیف جسٹس نے منظور کیا۔ جمعیۃ کے صدر مولانا ارشد مدنی نے آج ہوئی قانونی کارروائی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسٹے کو برقرار رکھنے کا فیصلہ بہت اہم ہے، کیونکہ اس سے فرقہ پرست طاقتوں کی اکسانے والی سرگرمیوں پر روک لگی رہے گی۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ ایک انتہائی حساس اور اہم معاملہ ہے، کیونکہ اس قانون کے بنے رہنے سے ہی ملک کا اتحاد و بھائی چارہ محفوظ رہ سکتا ہے۔
Published: undefined
مولانا ارشد مدنی کا کہنا ہے کہ فرقہ پرست طاقتوں نے ایک بار پھر اپنے خوفناک ارادوں کو ظاہر کر دیا ہے، اور ذیلی عدالتوں کے ذریعہ اس طرح کے معاملوں میں دیے گئے غیر ذمہ دارانہ فیصلوں سے حالات مزید خراب ہو گئے ہیں۔ مولانا مدنی نے کہا کہ بابری مسجد معاملے میں آئے فیصلے کو ہم نے سخت دل سے منظور کیا تھا، یہ سوچ کر کہ اب مندر-مسجد کا کوئی تنازعہ نہیں رہے گا اور ملک میں امن و بھائی چارہ کا ماحول بنے گا۔ لیکن ہمارا یہ بھروسہ غلط ثابت ہوا۔ برسراقتدار پارٹیوں کی خاموش منظوری سے فرقہ پرست طاقتوں کو پھر سے فعال ہونے کا موقع مل گیا اور انھوں نے آئین و قانون کی بالادستی کو درکنار کرتے ہوئے کئی مقامات پر ہماری عبادت گاہوں کو نشانہ بنا ڈالا۔
Published: undefined
مولانا ارشد مدنی نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح عبادت گاہوں کے تحفظ کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک واضح اور سخت قانون موجود ہوتے ہوئے بھی یہ سب کیا گیا، اور مرکزی حکومت محض خاموش تماشائی بنی رہی، وہ اس بات کا خطرناک اشارہ ہے کہ اگر یہ قانون ختم ہو گیا تو ملک میں کوئی بھی مسجد، قبرستان، عیدگاہ یا امام باڑہ محفوظ نہیں رہے گا۔ انھوں نے متنبہ کیا کہ فرقہ پرست عناصر ہر جگہ مندر ہونے کا دعویٰ کر تنازعہ کھڑا کرتے رہیں گے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined