قومی خبریں

لاک ڈاؤن میں بے روزگار ہوئے لوگوں کی 10 روپے میں بھوک مٹانے والے فرشتہ ہیں کرن ورما

دوست کے ایک فون نے کرن ورما کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ کم از کم لاک ڈاؤن کی وجہ سے جو لوگ بے روزگار ہوئے ہیں، اور کسی سے کچھ کہہ نہیں پاتے ان لوگوں کو ایک وقت کے کھانے کا کوئی سستا انتظام کیا جائے۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز 

’’اچانک ایک دن میرے ایک دوست کا فون آیا کہ اس کو 100 روپے کی ضرورت ہے۔ میں تھوڑا پریشان ہوا کہ اس نے کبھی پیسے نہیں مانگے اور آج مانگے بھی تو صرف 100 روپے۔ میں تھوڑا فکر مند ہوا اور میں اس کے گھر چلا گیا۔ گھر پر جو اس کی حالت دیکھی تو وہ بہت تکلیف دہ تھی۔ میرا دوست جعفر آباد میں کپڑے کی کترنوں کا کام کرتا تھا اور وہ اپنی زندگی سے مطمئن تھا۔ لیکن لاک ڈاؤن میں اس کا سب ختم ہو گیا تھا۔ میں اس کی جو مدد کر سکتا تھا وہ تو میں نے کی ہی، لیکن اس کی حالت نے مجھے کچھ سوچنے پر مجبور کیا۔‘‘

Published: undefined

یہ ایک حادثہ ہے، یا یوں کہیے کہ یہ وہ ایک فون تھا جس نے کرن ورما کی پوری سوچ بدل دی۔ کرن نے ویسے تو بلڈ ڈونیشن کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا ہوا ہے اور گزشتہ چار سال سے ایک این جی او چلا رہے ہیں، لیکن دوست کے اس فون نے انھیں یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ کم از کم لاک ڈاؤن کی وجہ سے جو لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں، اور کسی وجہ سے کسی سے کچھ کہہ نہیں پاتے ان لوگوں کو ایک وقت کے کھانے کا کوئی سستا انتظام تو کیا جائے۔

Published: undefined

کرن ورما اس جگہ پر لوگوں کو محض 10 روپے میں بھر پیٹ کھانا دیتے ہیں جہاں اس سال کے شروع میں بی جے پی لیڈر کپل مشرا نے پولس کی موجودگی میں یہ دھمکی بھرا اعلان کیا تھا کہ وہ ٹرمپ کے دورہ کی وجہ سے ابھی کچھ نہیں کہہ رہے ہیں، لیکن اگر یہ مظاہرین (سی اے اے مخالف مظاہرین) نہیں ہٹے تو بعد میں وہ خاموش نہیں رہیں گے۔ اس کے بعد شمال مشرقی دہلی میں جو کچھ ہوا وہ سبھی جانتے ہیں۔ لیکن اس جگہ سے کرن ورما نے جو تکلیف بانٹنے اور غریبوں کا پیٹ بھرنے کا کام کیا ہے اس سے نہ صرف ایک نئی امید پیدا ہوتی ہے بلکہ وبا کے اس خراب دور میں نئی توانائی بھی ملتی ہے۔

Published: undefined

موج پور میٹرو اسٹیشن کے قریب اور مین روڈ پر جس بڑے سے ہال میں کرن دوپہر کا کھانا 10 روپے میں دیتے ہیں، اس ہال کا کرایہ 60 ہزار روپے ماہانہ ہے۔ کرن ورما کا کہنا ہے کہ لوگوں کی مدد سے ہی یہ کام ممکن ہو پایا ہے۔ دوپہر کے لیے وہ دو بار کے کھانے کا انتظام کرتے ہیں۔ 700 لوگوں کے لیے تو وہ انتظام کرتے ہی ہیں، لیکن دوسری بار کے لیے وہ 300 لوگوں کے کھانے کا انتظام بھی رکھتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’’ایک دال، ایک سبزی، چاول اور روٹی بھر پیٹ دی جاتی ہے اور ہفتہ و اتوار کو پوری، چھولے اور بھی دیگر کھانے بنائے جاتے ہیں۔ کھانا باہر اس لیے نہیں دیا جاتا تاکہ اگر کچھ غریب لوگ فیملی کے ساتھ بھی آئیں تو ان کو برا نہ لگے۔‘‘ یہاں پر صرف دوپہر کا کھانا دیا جاتا ہے کیونکہ کرن کا کہنا ہے کہ ’’شام کو نشہ کرنے والوں کی لائن لگ جاتی ہے۔

Published: undefined

جس وقت ہم دس روپے کے اس ڈھابے میں پہنچے تو دوپہر کے لنچ کا وقت ختم ہو چکا تھا اور ہال کی صفائی ہو رہی تھی۔ ایک بزرگ ہال کی صفائی کر رہے تھے جن کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ اپنی مرضی سے یہاں کی صفائی کرتے ہیں۔ ویسے یہاں پر دس لوگ کام کرتے ہیں اور سب کو کرن اچھی تنخواہ دیتے ہیں۔ یہ دس کے دس وہ لوگ ہیں جن کی لاک ڈاؤن میں ملازمت چلی گئی اور وہ ملازمت نہ ہونے کا درد سمجھتے ہیں۔

Published: undefined

کرن ورما روزانہ صبح نوئیڈا سے آتے ہیں اور ان کی بیوی ان کا ہر کام میں تعاون کرتی ہے۔ ہال کے باہر ایک وہیل چیئر رکھی تھی۔ انھوں نے پوچھنے پر بتایا کہ ایک بچہ معذور ہے، اس کے لیے منگائی ہے۔ ایسانہیں ہے کہ کرن صرف بلڈ عطیہ کرتے ہیں یا غریبوں کے لیے کھانے کا انتظام کرتے ہیں، بلکہ انھوں نے اپنے دوست کی بیٹی کی پڑھائی کا پورا انتظام کیا اور اس کو آن لائن پڑھائی کے لیے ٹیب بھی دیا اور ایک معذور بچے کے لیے وہیل چیئر کا بھی انتظام کیا۔

Published: undefined

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وبا اور لاک ڈاؤن نے بہت سے لوگوں کی زندگی کو پوری طرح تباہ کر دیا ہے۔ ایسے میں کچھ لوگوں کی چھوٹی سی کوشش بھی بہت بڑی ہے اور یہی انسانیت بھی ہے۔ کرن کسی سے بھی نقد کوئی مدد نہیں لیتے۔ یا تو چیک یا ڈیجیٹل مدد لیتے ہیں اور ہر پیسے کی رسید دیتے ہیں۔ کرن کا کہنا ہے کہ وہ ہر پائی کا حساب رکھتے ہیں۔ یہ تو وہ بھوکا ہی بتا سکتا ہے کہ کرن کتنا بڑا کام کر رہے ہیں کیونکہ کسی شاعر نے کہا ہے...

بھوک میں کوئی کیا بتلائے کیسا لگتا ہے

سوکھی روٹی کا ٹکڑا بھی تحفہ لگتا ہے

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined