نئی دہلی: نماز، اذان، حجاب اور گوشت پر تنازعہ کھڑا کرنے کے بعد اب دائیں بازوں کی نظر میں مسلمانوں سے وابستہ اوقاف بھی کھٹکنے لگے ہیں۔ دہلی ہائی کورٹ میں عرضی داخل کرتے ہوئے وقف قانون 1995 کی کئی دفعات کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا گیا ہے۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ یہ التزامات وقف بورڈوں کو لامتناہی طاقت فراہم کرتے ہیں جبکہ ٹرسٹ، مٹھ، کمیٹیوں کو یکساں درجہ فراہم نہیں کیا جاتا۔
Published: undefined
بی جے پی لیڈر اور وکیل اشونی کمار کی جانب سے دائر کی گئی عرضی میں کہا گیا ہے کہ ہندو، جین، بودھ، سکھ اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو اپنی جائیداد کو وقف بورڈوں کی فہرست میں شامل کرنے سے بچانے کے لئے کوئی حفاظت نہیں ہے۔ اس طرح سے ہندووں، جینوں، بودھوں، سکھوں، عیسائیوں اور پارسیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا ہے، جوکہ آئین کی شق 14-15 کی خلاف ورزی ہے۔
Published: undefined
عرضی میں کہا گیا ہے کہ ریاست ٹرسٹ، ٹرسٹیز، چیریٹی، خیراتی ادارے اور مذہبی بندوبست اداروں کے لئے یکساں قانون نافذ کر سکتی ہے اور ایسا کرنا آئین کے آرٹیکل 14-15 کے مطابق صحیح ہے۔ لہذا کوئی وقف ان املاک کے لئے علیحدہ قانون نہیں بنا سکتا جو وقف میں شامل ہیں۔
Published: undefined
عرضی گزار نے مزید کہا کہ وقف قانون 1995 کے کئی التزامات وقف املاک کے انتظام کی آڑ میں بنائے گئے ہیں۔ چونکہ دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے لئے ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے، لہذا یہ ملک کے سیکولرازم، اتحاد اور سالمیت کے خلاف ہے۔ نیز آئین میں کہیں بھی وقف کا ذکر نہیں ہے۔
Published: undefined
عرضی میں کہا گیا ہے کہ وقف قانون نے وقف بورڈوں کو لامتناہی طاقت فراہم کی ہے اور وقف املاک کو دیگر مذہبی اداروں سے بالاتر رکھا گیا ہے۔ کسی دیگر قانون نے ہندو اور کسی دیگر غیر اسلامی ادارے کو اتنے بڑے پیمانے پر طاقت فراہم نہیں کی ہے۔ نیز ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مذہبی املاک سے وابستہ معاملوں کا تصفیہ صرف دیوانی عدالت میں ہونا چاہئے اور اس طرح کے معاملوں کی سماعت مجموعہ ضابطہ دیوانی (سی پی سی) 1908 کی دفعہ 9 کے تحت کی جانی چاہئے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined