قومی خبریں

مہنگائی نے نکال دیا دَم، بازار میں گاہکوں کی آمد ہوئی کم، کاروباری طبقہ پریشان

بڑھتی مہنگائی نے سماج کے ہر طبقہ کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے، زندگی کی ہر ضرورت سے جڑی چیزوں پر مہنگائی کا سیاہ سایہ پڑ چکا ہے، بازاروں کی رونق رمضان کے مہینے میں بھی غائب ہو چکی ہے۔

تصویر آس محمد
تصویر آس محمد 

بڑھتی مہنگائی نے سماج کے ہر طبقہ کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے، زندگی کی ہر ضرورت سے جڑی چیزوں پر مہنگائی کا سیاہ سایہ پڑ چکا ہے، بازاروں کی رونق رمضان کے مہینے میں بھی غائب ہو چکی ہے۔ چھوٹے دکانداروں کے چہرے مرجھائے ہوئے ہیں۔ پھل اور سبزیوں سے لے کر تمام ضروری چیزوں کی قیمتیں دوگنی ہو گئی ہیں۔ مظفر نگر کے میراپور قصبے سے یہ گراؤنڈ رپورٹ:

Published: undefined

سموسے کا سائز آدھا ہو گیا اور قیمت دوگنی: سونو کشیپ

میراپور پولیس اسٹیشن کے پاس سونو کشیپ گزشتہ 6 سال سے اپنی سموسے کی دکان چلاتے ہیں۔ سونو بتاتے ہیں کہ وہ اس سال سے پہلے تک 300 گرام کا سموسا بنا رہے تھے اور اس کے لیے 10 روپے لے رہے تھے۔ بڑا سموسا ہونے کی وجہ سے گاہک بھی بڑی تعداد میں پہنچتے تھے۔ اب 120 گرام کا سموسا بنا رہے ہیں اور 12 روپے قیمت وصول کر رہے ہیں۔ گاہک بھی آدھے رہ گئے اور کمائی بھی اسی تناسب میں گھٹ گئی ہے۔ سونو کے 2 بچے ہیں، وہ اسکول جاتے ہیں۔ سونو بتاتے ہیں کہ اسکول کی فیس بڑھ گئی ہے۔

Published: undefined

سونو کا کہنا ہے کہ سموسے بنانے میں استعمال ہونے والی ہر چیز مہنگی ہو گئی ہے۔ آلو، مسالے، تیل اور گیس سب کی قیمت میں تقریباً دوگنا اضافہ ہوا ہے۔ میں نے سموسے کی لاگت نصف کر کے 2 روپے قیمت بڑھا دی ہے۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو پہلے والے سائز کا سموسا میں 25 روپے میں فروخت کرنے کی کوشش کرتا تو کون خریدتا۔ مہنگائی بے قابو ہے۔

Published: undefined

لوگوں نے انڈرویر تک خریدنے بند کر دیئے ہیں: وکاس گویل

میراپور کے مین بازار میں ڈبو بینگل اسٹور کے نام سے ایک بڑی دکان چلانے والے وکاس گویل بتاتے ہیں کہ ہوزری کے سامان پر دوگنی سے زیادہ قیمت کے سبب بازار میں انڈرویر خریدنے پر زبردست کمی آئی ہے۔ بازار میں 60 روپے کے انڈرویر کو اب مجبوری میں 100 روپے میں فروخت کرنا پڑ رہا ہے۔ گاہک سمجھتے ہی نہیں ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ پیسہ ہم نے بڑھایا ہے۔ خواتین صرف ضرورت کے لیے چوڑیاں خرید رہی ہیں۔ آدھا دن ہو چکا ہے، ابھی تک صرف 3 ہزار روپے کی دکانداری ہوئی ہے جب کہ دکان پر 5 لڑکے کام کرتے ہیں۔ گزشتہ دو سال تو کورونا میں برباد ہو گئے، اس بار مہنگائی نے کاروبار کی کمر توڑ دی ہے۔ ہمارا کاروبار آدھا رہ گیا ہے۔

Published: undefined

گرمیوں میں بادام کی قیمت گھٹتی تھی، اس بار 180 روپے فی کلو کا اضافہ ہو گیا: نیرج کمار

ڈرائی فروٹ کی ایک چھوٹی سی دکان چلانے والے نیرج کمار بتاتے ہیں کہ بادام کی قیمت میں ہمیشہ سردیوں میں اُچھال آتا تھا، کیونکہ تبھی بادام زیادہ کھایا جاتا ہے۔ لیکن اس بار گرمیوں میں قیمت بہت بڑھ گئی ہے۔ ایک کلو پر 180 روپے کا فرق پڑ رہا ہے۔ گاہک کو سمجھانا مشکل ہو جاتا ہے۔ وہ ناخوش ہو جاتے ہیں۔ پیسے کم کریں تو ہمیں خسارہ ہوتا ہے۔ دہلی سے مال خریدتے ہیں، جس سے ٹرانسپورٹ کا خرچ بہت آ رہا ہے۔ پٹرول و ڈیزل کی بڑھتی قیمتوں کا اثر ہر چیز پر دکھائی دے رہا ہے۔ رمضان کے مہینے میں ڈرائی فروٹ فروخت ہونے کی سب سے زیادہ امید تھی، لیکن اب تک گاہک نظر نہیں آ رہے ہیں۔

Published: undefined

گاہک کہتے ہیں کہ ہر چار دن میں پیسے بڑھا دیتے ہو، وہ ہماری مجبوری کیا جانیں: انکر اروڑا

سدھی سوئٹس کے مالک انکر اروڑا بتاتے ہیں کہ دودھ کی قیمت حال ہی میں 5 روپے بڑھ گئی ہے۔ کمرشیل گیس، ریفائنڈ، گھی، مسالے سبھی کی قیمتیں دوگنی ہو گئی ہیں۔ یہ 3-2 سالوں کے اندر ہوا ہے۔ پہلے کورونا نے کاروبار برباد کیا تھا، اب مہنگائی بے حال کرنے والی ہے۔ مٹھائی خریدنے کے لیے گاہک آتے ہیں تو پیسے بڑھے ہوئے دیکھ کر بحث کرتے ہیں۔ ہمیں بھی اچھا نہیں لگتا، لیکن وہ ہماری مجبوری کیا جانیں۔

Published: undefined

لوگوں نے شادیوں میں مہمانوں کی تعداد گھٹا دی: سنجے آریہ

وِکی حلوائی کے نام سے مشہور شادیوں میں کھانے کا انتظام کرنے والے سنجے آریہ بتاتے ہیں کہ گزشتہ سالوں میں کورونا کی وجہ سے کم شادیاں ہوئی تھیں، تو اس بار خوب شادیاں ہوئی ہیں۔ لیکن شادیوں میں صرف خاص مہمانوں کو ہی بلایا جا رہا ہے۔ سنجے بتاتے ہیں کہ بڑی تقریب کی ہمت کم ہی لوگ کر پائے ہیں۔ ان کے پاس جو بھی بکنگ آئی اس میں مہمانوں کی تعداد محدود رکھی گئی۔ اس بار فی کس 200 روپے کی پلیٹ کا خرچ آ رہا ہے۔ تقریب منعقد کرنے والوں نے خرچ سے بچنے کے لیے مہمانوں کی تعداد گھٹا دی ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined