قومی خبریں

کسان تحریک: 5 کلومیٹر طویل عارضی شہر میں نظر آ رہے ہیں احتجاج کے کئی رنگ!

شمبھوبارڈر پر بسی کسانوں کی اس عارضی احتجاجی بستی کی تیاری دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کسان اس تحریک کے لیے مکمل تیاری کے ساتھ اپنے گھروں سے نکلے ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>شمبھو بارڈ پر احتجاج کر رہے کسانوں کی عارضی بستی / تصویر سوشل میڈیا</p></div>

شمبھو بارڈ پر احتجاج کر رہے کسانوں کی عارضی بستی / تصویر سوشل میڈیا

 

ایم ایس پی کی قانونی ضمانت جیسے مطالبات کے لیے جاری کسان تحریک میں شامل کسانوں نے شمبھو بارڈر پر اب ایک نئی بستی بسا لی ہے۔ گوکہ یہ بستی عارضی ہے لیکن اس میں کسانوں کے احتجاج کے کئی رنگ نظر آ رہے ہیں۔ ٹرکوں اور ٹریکٹروں پر مشتمل یہ بستی 5 کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہے، جس میں 15 ہزار سے زائد کسان موجود ہیں۔ رات ہوتے ہی یہ ٹرک و ٹریکٹر بیڈ رومز و کچن میں تبدیل ہو جاتے ہیں جبکہ ان پر لگے لاؤڈاسپیکرس پر دن بھر مختلف گانے بجتے رہتے ہیں۔

Published: undefined

اس عارضی بستی میں ضروریاتِ زندگی کی ہر شئے موجود ہے۔ ایک گھر میں جن جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، کسان وہ سب اپنے ساتھ لائے ہیں۔ گیس سیلنڈر، لکڑیاں، دودھ کے ڈبے، آلو و پیاز کی بوریاں، آٹا، دال، چاول، مصالحے اور یہاں تک کہ گھروں میں تیار کی گئی کھانے پینے کی اشیا تک ان ٹرکوں وٹرالیوں میں موجود ہیں۔ ان کی مقدار دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ 6 ماہ کے لیے کافی ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسان اس تحریک میں 6 ماہ کی تیاری کے ساتھ حصہ لینے آئے ہیں۔

Published: undefined

’امراجالا‘ میں شائع رپورٹ کے مطابق لوگ سبزیاں اور دیگر اشیاء بھی لے کر پہنچ رہے ہیں۔ کسان بھی اپنے ساتھ برتن، کپڑے، صابن، تیل وغیرہ لے کر آئے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ یہ تحریک طویل عرصے تک چل سکتی ہے۔ گدوں کے نیچے بھوسے رکھنے کا بھی انتظام ہے۔ ہر ٹرالی پر ایک بلب نصب ہے۔ ایک ٹرالی میں بارہ افراد کے رہنے کی گنجائش ہے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ ’’یہ ہمارا بیڈ روم ہے۔ ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہمیں یہاں کتنے دن رہنا ہے۔ گھر سے نکلنے سے قبل ہی ہمیں اندازہ تھا کہ یہ لڑائی طویل عرصے تک چلے گی۔‘‘

Published: undefined

موہی خورد گاؤں کے رہنے کسان تیجندر سنگھ کا کہنا ہے کہ ’’کچھ سیاستدان اور عام لوگ کسانوں کے احتجاج کو یہ کہہ کر بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ علاحدگی پسندوں کی تحریک ہے، جو حکومت کو بلیک میل کرنا چاہتی ہے۔ جبکہ یہ سراسر غلط ہے۔ کسان اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر نکلے ہیں۔ ہمارے گرووں نے ہمیں یہی تو سکھایا ہے کہ ہمیں سب کی خدمت کرنی ہے۔ انصاف کرنا اوپر والے کے ہاتھ میں ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’کسان مضبوط ارادوں، لنگر اور اتحاد کی طاقت کے ساتھ اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘‘

Published: undefined

اسی کسان تحریک میں اور اسی شمبھو بارڈر پر گزشتہ دنوں ایک بزرگ کسان گیان سنگھ کی موت ہو گئی تھی۔ یہاں پر احتجاج کر رہے کسان تنظیموں کے کسان لیڈران مرنے والے کسان کی آخری رسومات میں شریک ہونے کے لیے ان کے گاؤں گیے۔ اس موقع پر ان لیڈران نے کہا کہ ’’گیان سنگھ کی موت کی وجہ مرکزی حکومت کا آمرانہ رویہ ہے۔‘‘ کسان لیڈر بلبیر سنگھ نے کہا کہ ’’گیان سنگھ کی موت سے ہمارے کسان تحریک کو تقویت ملی ہے اور ایم ایس پی کا مطالبہ منظور ہونے کے بعد ہی کسان اب واپس جائیں گے۔‘‘

Published: undefined

اس احتجاجی تحریک کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ سرحد کے قریب گاؤں کے لوگ اور گرودواروں کی کمیٹیوں کے نمائندے بھی کسانوں کے حق میں آگے آرہے ہیں۔ گورداسپور سے پہنچے کسان جرنیل سنگھ  اور امرتسر کے پنڈھیر کلاں گاؤں کے بلوندر سنگھ (70) نے بتایا کہ ’’کسانوں کے پاس 6 ماہ کا راشن ہے، لیکن اب تک لنگر بنانے کی بہت کم ضرورت پڑی ہے۔ گرودوارہ کمیٹیاں اور آس پاس کے گاؤں والے ہر روز دودھ سے لے کر سبزیوں، روٹی، لسی، مٹھائی، پھل اور پانی تک کے لنگر کے ساتھ پہنچ رہے ہیں۔‘‘

Published: undefined

تحریک میں شامل ہونے والے کسان اپنی اولاد کی طرح پالی اپنی فصل کو یوں ہی چھوڑ کر بڑی تعداد میں شمبھو بارڈر پہنچ رہے ہیں۔ جس گھر میں فصلوں کی دیکھ بھال کے لیے صرف ایک ہی شخص موجود ہے وہ بھی شمبھو بارڈ پر اپنی حاضری درج کرا رہا ہے۔ ہوشیار پور سے پہنچے پرم جیت سنگھ نے بتایا کہ ’’ان کے پیچھے فصلوں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ ان کی بیوی بھی ان کے ساتھ ہے۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ ’’وہ موسم کی سختی بھی برداشت کرلیں گے اور فصلوں کا نقصان بھی لیکن اس بار اپنا حق لے کر ہی واپس جائیں گے۔‘‘

Published: undefined

ہریانہ کی جانب سے داغی جا رہی ربڑ کی گولیوں و آنسو گیس کے گولوں کے مقابلے احتجاج میں موجود خواتین جھنڈے و ڈنڈے سے مورچہ فتح کرنے کا جذبہ رکھتی ہیں۔ ان میں 60 سے 80 سال کی عمر کی کئی بزرگ خواتین بھی شامل ہیں لیکن بڑھاپے کے  باوجود ان میں ہمت کی کمی نہیں ہے۔ خواتین کا کہنا ہے کہ ’’جب ان کے بچے، بھائی اور شوہر اپنے حقوق کے لیے سرحد پر غیر مسلح لڑ رہے ہیں تو وہ گھر کیسے بیٹھیں گی۔ اسی لیے وہ بارڈر پر جمع ہو رہی ہیں اور ضرورت پڑی تو خود آگے آ کر لڑیں گی۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined