نواز  شریف نے کیوں نہیں پہنا  وزیراعظم کا تاج ؟

مسلم لیگ (ن) 266 رکنی قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی، لہٰذا شہباز شریف وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں اپنے بڑے بھائی نواز شریف سے آگے نکل گئے۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل تصویر آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

نواز شریف نے حال ہی میں اعلان کیا کہ وہ پاکستان کے اگلے وزیر اعظم نہیں بننے جا رہے ہیں۔ انہوں نے اس عہدے کے لیے اپنے بھائی شہباز شریف کا نام پیش کیا اور صوبہ پنجاب کی کمان اپنی صاحبزادی مریم نواز کو سونپ دی۔ اس طرح انہوں نے ریکارڈ چوتھی مرتبہ  پاکستان کےاپنے وزیراعظم بننے کی خواہش ترک کر دی۔ نواز شریف لندن سے خود ساختہ جلاوطنی ختم کر کے پاکستان واپس آئے تھے تاکہ وہ الیکشن لڑیں اور ایک بار پھر وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوں۔ لیکن پھر ایسا کیا ہوا کہ اس نے خود کو اس عہدے سے دور کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

مسلم لیگ (ن) کے اندرونی ذرائع کے مطابق فوج نے نواز شریف کو دو آپشن دیے تھے، یا تو وہ اپنے لیے وزیر اعظم کا عہدہ منتخب کریں یا پھر اپنی بیٹی مریم کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنانے کے لیے وزیر اعظم کے عہدے سے دوری اختیار کریں۔ نواز شریف نے دوسرے آپشن کا انتخاب کیا۔ انہوں نے اپنی بیٹی اور سیاسی وارث 50 سالہ مریم نواز کے حق میں وزیر اعظم کے عہدے کی دوڑ سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا۔ پارٹی کے ایک ذرائع نے خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کو بتایا، 'نواز شریف چوتھی بار مخلوط حکومت کی قیادت کرنے کے لیے وزیر اعظم بن سکتے تھے، لیکن تب ان کی بیٹی کو پنجاب کی وزیر اعلیٰ بننے کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ بیٹی کی محبت کی وجہ سے نواز نے چوتھی بار اپنے وزیراعظم بننے کی خواہش ترک کر دی۔


پاکستان کی 75 سالہ تاریخ کے نصف سے زائد عرصے تک اقتدار فوجی حکمرانوں کے پاس رہا ہے۔ پاکستان میں سیکیورٹی کے ساتھ ساتھ خارجہ پالیسی کے معاملات میں فوج کا بہت زیادہ عمل دخل ہے۔ ایک اور ذرائع کے مطابق ، 'فوج نے نواز شریف کو دو آپشن دئے تھے۔ پہلا،  اسلام آباد میں مخلوط حکومت کا سربراہ بننا اور اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنانا۔ دوسرا شہباز کے لیے اعلیٰ عہدہ چھوڑ کر اپنی بیٹی مریم کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنانا ۔ نواز نے دوسرا آپشن منتخب کیا۔ ذرائع نے بتایا کہ چونکہ 72 سالہ شہباز شریف فوج کے پسندیدہ تھے، آخر کار نواز شریف کو کسی نہ کسی بہانے سے ہٹا دیا گیا۔

مسلم لیگ (ن) 266 رکنی قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی، لہٰذا شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں اپنے بڑے بھائی نواز شریف کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اس ہفتے مسلم لیگ ن کی جانب سے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار نامزد کرنے کے فیصلے کا بھی سوشل میڈیا پر چرچا ہو رہا تھا۔


پاکستان میں حکومت بنانے کے لیے کسی جماعت کو 266 رکنی قومی اسمبلی میں 134 نشستیں حاصل کرنا ہوتی ہیں۔ پاکستان کے انتخابات میں سابق وزیراعظم عمران خان کی پارٹی پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے 92 نشستیں حاصل کیں۔ مسلم لیگ (ن) نے 79، بلاول بھٹو زرداری کی پاکستان پیپلز پارٹی نے 54 اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے 17 نشستیں حاصل کیں۔

ادھر مریم اب پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ بننے جا رہی ہیں جو کہ پاکستان کا ایک اہم صوبہ ہے جس کی آبادی 12 کروڑ ہے۔ دوسری جانب شہباز شریف 6 جماعتوں پر مشتمل مخلوط حکومت کی قیادت کے لیے تیار ہیں۔ پاکستان میں 8 فروری کو عام انتخابات کے لیے ووٹنگ ہوئی جس میں 47.6 فیصد لوگوں نے ووٹ ڈالا۔ 2018 میں ہونے والے گزشتہ انتخابات میں 52.1 فیصد ووٹنگ ریکارڈ کی گئی تھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔