قومی خبریں

گالی دینے میں ’دہلی والے‘ سب سے آگے، دوسرے نمبر پر پنجاب، لڑکیاں بھی پیچھے نہیں، سروے میں ہوا انکشاف

سروے میں گزشتہ 11 سالوں میں مختلف ریاستوں کے 70 ہزار لوگوں کو شامل کیا گیا ہے، جس میں نوجوان، والدین، اساتذہ، پولیس اہلکار، ڈاکٹر، وکیل تاجر، پنچایت ممبر اور پروفیسر تک شامل ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر اے آئی</p></div>

تصویر اے آئی

 

آپ کے آس پاس کئی لوگ ہوں گے جو بات بات پر گالی دیتے ہوں گے، اگرچہ ان کا مقصد کسی کو بے عزت کرنا نہ ہو لیکن یہ ان کی سوچ اور طرز عمل کو ظاہر کرتا ہے۔ گالی دینا، جسے ایک توہین آمیز رویہ سمجھا جاتا ہے، وہ اب لوگوں کی زبان پر اس حد تک چڑھ چکا ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ماں-بہن اور بیٹی کے نام کی گالیاں لوگوں کے منہ سے نکل ہی آتی ہے۔

Published: undefined

گالی دینے والوں میں مردوں کے ساتھ ساتھ کالج کی لڑکیاں اور خواتین بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ ’سیلفی وِد ڈاٹر فاؤنڈیشن‘ کے بانی مہارشی دیانند یونیورسٹی روہتک کے پروفیسر ڈاکٹر سنیل جاگلان نے اس پر ایک سروے کیا ہے۔ سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ گالی دینے والی ریاستوں میں دہلی سر فہرست ہے۔ سروے کی رپورٹ کے مطابق دہلی کے 80 فیصد لوگ گالی دیتے ہیں، دوسرے نمبر پر پنجاب کے لوگ آتے ہیں جہاں کے 78 فیصد لوگ بات بات پر گالی دے دیتے ہیں۔

Published: undefined

سروے کے مطابق گالی دینے کے معاملہ میں دہلی اور پنجاب کے علاوہ دیگر ریاستوں کی بات کی جائے تو اترپردیش اور بہار کے 74 فیصد لوگ گالی دیتے ہیں۔ راجستھان کے 68 فیصد تو ہریانہ کے 62 فیصد لوگ بات بات پر ماں-بہن کی گالی دیتے ہیں۔ مہاراشٹر میں 58 فیصد، گجرات میں 55 فیصد، مدھیہ پردیش میں 48 فیصد اور اتراکھنڈ میں 45 فیصد لوگ گالی دیتے ہیں۔ ان کے علاوہ کشمیر کے لوگ 15 فیصد، شمال مشرق اور دیگر ریاستوں کے لوگ 20 سے 30 فیصد گالی دیتے ہیں۔

Published: undefined

سروے کا سب سے حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ لڑکیاں بھی گالی دینے کے معاملہ میں لڑکوں سے پیچھے نہیں ہیں، سروے کے مطابق 30 فیصد لڑکیاں اور خواتین گالی دیتی ہیں۔ یہاں تک کہ اسکول و کالج میں ماں-بہن اور بیٹی کے نام پر گالی دینا عام ہو چکا ہے۔ اس سروے میں گزشتہ 11 سالوں میں مختلف ریاستوں کے 70 ہزار لوگوں کو شامل کیا گیا ہے، جس میں نوجوان، والدین، اساتذہ، پولیس اہلکار، ڈاکٹر، وکیل تاجر، پنچایت ممبر اور پروفیسر تک شامل ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined