قومی خبریں

دہلی فساد: کیا ہم اپنے گریبان میں جھانکنے کے لیے تیار ہیں؟... سہیل انجم

راقم کا یہ اندیشہ درست ثابت ہوا اور دہلی کے شمال مشرقی علاقے کو آگ اور خون کے دریا میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہ گنتی اب فضول ہے کہ فسادات میں کتنے مرے اور کتنے زخمی ہوئے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

راقم الحروف نے بہت پہلے اپنے ایک مضمون میں یہ اندیشہ ظاہر کیا تھا کہ شہریت ترمیمی قانون کی حمایت اور مخالفت کے نام پر دہلی میں فساد کرانے کی سازش رچی جا رہی ہے۔ راقم کا یہ اندیشہ درست ثابت ہوا اور دہلی کے شمال مشرقی علاقے کو آگ اور خون کے دریا میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہ گنتی اب فضول ہے کہ فسادات میں کتنے مرے اور کتنے زخمی ہوئے۔ اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا دہلی کے امن پسند طبقات اور بالخصوص مسلمانوں نے فسادات کے اندیشے کو نظرانداز کر دیا تھا۔

Published: 01 Mar 2020, 10:11 PM IST

حالانکہ جس طرح جامعہ ملیہ اسلامیہ اور شاہین باغ میں گولیاں چلائی گئیں اور شاہین باغ میں ایک سڑک کو بند کرنے کی مخالفت میں سڑک سے لے کر عدالت تک سرگرمی دکھائی گئی، اس کے پیش نظر یہی کچھ ہونا تھا جو ہوا۔ لیکن ان لوگوں کو جو شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف پرامن احتجاج کرتے رہے ہیں ان کو اس کا احساس کیوں نہیں ہوا۔

Published: 01 Mar 2020, 10:11 PM IST

جب 23 فروری بروز اتوار یہ خبر آئی کہ کم و بیش ایک ہزار خواتین نے جعفرآباد میٹرو اسٹیشن کے نیچے دھرنا شروع کر دیا ہے تو اسی وقت دل دھڑک اٹھا تھا کہ ہو نہ ہو کوئی انہونی ہو کر رہے گی۔ علاقے کے بعض ذمہ دار مسلمانوں نے ان خواتین کو وہاں سے اٹھانے کی کوشش کی مگر وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ بتایا جاتا ہے کہ ’’پنجرہ توڑ‘‘ نامی ایک گروپ اس دھرنے کے پس پردہ تھا۔

Published: 01 Mar 2020, 10:11 PM IST

مقامی ذمہ دار مسلمانوں نے ان خواتین سے اپیل کی تھی کہ وہ مذکورہ تنظیم کے جھانسے میں نہ آئیں اور دھرنا ختم کر دیں۔ کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ یہ دھرنا شاہین باغ کے معاملے پر سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت کو سبوتاژ کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ عدالت عظمیٰ نے شاہین باغ کے مظاہرین سے گفتگو کرنے کے لیے مذاکرات کار مقرر کرکے کسی حد تک نرمی دکھائی تھی اور مذاکرات کاروں نے بھی بالخصوص ان کے معاون وجاہت حبیب اللہ نے مظاہرین کے حق میں عدالت عظمیٰ میں حلف نامہ داخل کر دیا تھا۔

Published: 01 Mar 2020, 10:11 PM IST

مذکورہ مذاکرات کاروں سنجے ہیگڑے اور سادھنا راما چندرن نے بھی مواقف موقف اختیار کیا تھا اور ان مقامات کا دورہ کرکے جہاں پولیس نے راستہ روکا ہے، پولیس کی اس کارروائی پر اظہار ناراضگی ظاہر کی تھی۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ سپریم کورٹ اس معاملے پر اگر کوئی اہم فیصلہ نہیں بھی سنا سکا تو خیال کیا جاتا ہے کہ وہ حکومت کو یہ ہدایت دے گا کہ وہ احتجاجی خواتین سے بات کرے۔

Published: 01 Mar 2020, 10:11 PM IST

لیکن جعفرآباد میں جب دھرنے کا آغاز کر دیا گیا تو اس پوری کوشش پر پانی پھر گیا۔ آخر یہ پنجرہ توڑ گروپ کون ہے جس نے شاہین باغ کے دھرنے کو ناکام بنانے کی سازش رچی۔ جس نے سپریم کورٹ کے موافق رخ کو مخالف رخ میں بدل دیا۔

Published: 01 Mar 2020, 10:11 PM IST

لیکن ہم اس گروپ کو کیوں مورد الزام ٹھہرائیں۔ ہمیں تو ان لوگوں کی عقلوں پر ماتم کرنے کو جی چاہ رہا ہے جنھوں نے اپنی خواتین کو اس دھرنے میں جانے کے لیے آمادہ کیا یا جانے کی اجازت دی۔ حالانکہ اسی علاقے کی خواتین سیلم پور میں ایک سڑک کے کنارے بیٹھ کر احتجاج کر رہی تھیں تو پھر ایک سڑک بند کرنے کی کیا ضرورت پیش آگئی۔ جبکہ عدالت عظمیٰ بار بار یہ کہہ چکی ہے کہ احتجاج کا حق تو سب کو ہے لیکن راستہ بند کرنے کی اجازت کسی کو نہیں ہے۔ گویا اپنے پر امن احتجاج کے حق کو ہم نے ایک ہنگامے میں بدل دیا۔

Published: 01 Mar 2020, 10:11 PM IST

بالآخر وہی ہوا۔ عدالت عظمیٰ نے شاہین باغ کے معاملے پر سماعت کو، ایک بار پھر یہ کہتے ہوئے کہ کسی کو سڑک بند کرنے کی اجازت نہیں ہے، ایک لمبے وقفے کے لیے مؤخر کر دیا۔ اس کا ذمہ دار کون ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ آخر شاہین باغ کی خواتین کب تک وہاں بیٹھی رہیں گی۔

Published: 01 Mar 2020, 10:11 PM IST

حالانکہ اس دوران ایسے کئی مواقع آئے تھے جب انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ دھرنے کو ختم کیا جا سکتا تھا یا جگہ کو تبدیل کیا جا سکتا تھا۔ لیکن ایسے ہر موقع کو گنوا دیا گیا۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ شاہین باغ کے دھرنے کی ہوا نکل گئی ہے تو شاید بیجا نہیں ہوگا۔ جملہ سخت ہے لیکن حقائق پر مبنی ہے۔

Published: 01 Mar 2020, 10:11 PM IST

دوسری طرف جعفرآباد کے دھرنے کو ختم کروانے اور دہلی میں تین دہائیوں کے بدترین فسادات کے بعد ان لوگوں کے حوصلے بلند ہو گئے ہیں جو سی اے اے کی مخالفت کرنے والوں کی مخالفت کر رہے ہیں اور جو اس قانون کے معاملے پر حکومت کے ساتھ ہیں۔ نہ صرف ان کے بلکہ ان شرپسندوں کے بھی حوصلے بلند ہو گئے ہیں جو ہر ایسے موقع پر گنگا اشنان کے لیے تیار رہتے ہیں۔ دہلی فسادات نے سی اے اے مخالف پر امن مظاہرے کو ہندو مسلم تنازعہ میں تبدیل کر دیا ہے۔

Published: 01 Mar 2020, 10:11 PM IST

جعفرآباد میں کامیابی ملنے کے بعد مدن پور کھادر کے لوگوں نے سریتا وہار کی سڑک کھلوانے کے لیے یکم مارچ کو شاہین باغ تک مارچ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن پولیس نے ان لوگوں کو سمجھا بجھا کر فیصلہ واپس لینے پر مجبور کر دیا ہے۔ لیکن کب تک۔ پولیس ایسے لوگوں کو کب تک روک سکے گی۔ جہاں تک شاہین باغ کے محل وقوع کا معاملہ ہے تو کچھ پلس پوائنٹس کے باوجود زیادہ دنوں تک دھرنا گاہ کو شرپسندوں سے محفوظ رکھنا ممکن نہیں رہ سکے گا۔

Published: 01 Mar 2020, 10:11 PM IST

اب یہ کہنا کہ فسادات کے دوران پولیس نے پہلے تو اپنی ناکارکردگی کا مظاہرہ کیا اور اس کے بعد مسلمانوں کے خلاف ایکشن لیا، عقل مندی کی بات نہیں ہے۔ اس ملک میں جب بھی فساد ہوا ہے تو پولیس کا رول یہی رہا ہے۔ اندیشہ ہے کہ آگے بھی یہی رہے گا۔ اور وہ بھی ایسی صورت میں جب مرکز میں ایک ایسی حکومت قائم ہے جو سی اے اے مخالف مظاہروں کو ذرا بھی اہمیت دینا یا مظاہرین سے بات کرنا نہیں چاہتی۔ ماحول کے خراب ہونے سے مسلمانوں کو ہی نقصان پہنچے گا۔ لہٰذا اب مسلمانوں کو بہت سی سمجھداری سے کام لینا ہوگا ورنہ کسی اور علاقے میں آگ لگ جائے تو کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے۔

Published: 01 Mar 2020, 10:11 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 01 Mar 2020, 10:11 PM IST