قومی خبریں

543 میں سے 251 ارکان پارلیمنٹ پر فوجداری مقدمے، سپریم کورٹ کا اظہارِ تشویش

سپریم کورٹ میں پیش کردہ رپورٹ کے مطابق 543 میں سے 251 ارکان پارلیمنٹ کے خلاف فوجداری مقدمے درج ہیں۔ کیرالہ، تلنگانہ اور اوڈیشہ میں یہ شرح سب سے زیادہ ہے، معاملہ عدالت میں زیر غور ہے

<div class="paragraphs"><p>سپریم کورٹ آف انڈیا / آئی اے این ایس</p></div>

سپریم کورٹ آف انڈیا / آئی اے این ایس

 

سیاست میں مجرمانہ کردار کے لوگوں کی تیزی سے شمولیت سنگین معاملہ بن چکا ہے۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ میں ایک اعداد و شمار پیش کیا گیا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ 543 لوک سبھا اراکین پارلیمنٹ میں سے 251 پر فوجداری کے معاملے چل رہے ہیں۔ ان میں سے 170 پر ایسے جرم ہیں جن میں 5 یا اس سے زیادہ سال کی قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

سینئر وکیل وجئے ہنساریہ نے جسٹس دیپانکر دتہ اور جسٹس منموہن کی بنچ کو 83 صفحات کی ایک رپورٹ سونپی ہے، جسے مختلف ہائی کورٹ سے ڈیٹا لے کر تیار کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق کیرالہ کے 20 میں سے 19 اراکین پارلیمنٹ (95 فیصد) کے خلاف فوجداری مقدمہ درج ہے، جن میں سے 11 پر سنگین معاملے ہیں۔

Published: undefined

تلنگانہ کے 17 اراکین پارلیمنٹ میں سے 14 (82 فیصد) پر فوجداری مقدمے چل رہے ہیں۔ اوڈیشہ میں 21 میں سے 16 (76 فیصد)، جھارکھنڈ کے 14 میں سے 10 (71 فیصد) اور تمل ناڈو کے 39 میں سے 26 (67 فیصد) اراکین پارلیمنٹ کے خلاف فوجداری کیس درج ہیں۔ وہیں اتر پردیش، مہاراشٹر، مغربی بنگال، بہار، کرناٹک، آندھرا پردیش کے تقریباً 50 اراکین پارلیمنٹ پر فوجداری معاملے ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق ہریانہ کے 10 اور چھتیس گڑھ کے 11 اراکین پارلیمنٹ میں صرف ایک پر جرم کا الزام ہے۔ پنجاب کے 13 میں سے 2، آسام کے 14 میں سے 3، دہلی کے 7 میں سے 3، راجستھان کے 25 میں سے 4، گجرات کے 25 میں سے 5 اور مدھیہ پردیش کے 29 میں سے 9 اراکین پارلیمنٹ پر فوجداری مقدمہ چل رہا ہے۔

Published: undefined

سپریم کورٹ نے سیاست میں مجرمانہ شبیہ کے لوگوں کی شمولیت کو ایک بڑا معاملہ بتایا ہے۔ عدالت نے سوال کیا ہے کہ فوجداری معاملے میں قصوروار ٹھہرائے جانے کے بعد کوئی شخص پارلیمنٹ میں کیسے لوٹ سکتا ہے۔ جسٹس دیپانکر دتہ اور اور جسٹس منموہن کی بنچ نے اس لیے اس معاملے پر ہندوستان کے اٹارنی جنرل سے مدد مانگی ہے۔ عدالت مفاد عامہ کی ایک عرضی پر سماعت کر رہی تھی۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined